نفرت اور عداوت کی آندھی کو محبت اور خیر خواہی میں تبدیل کیاجائے! مولانا سید جلال الدین عمری (امیر جماعت اسلامی ہند و نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ)

کل (مورخہ 23/ جون 2018) جماعت اسلامی ہند کی جانب سے مرکز جماعت میں عید ملن تقریب کا خصوصی اہتمام کیا گیا۔ جس میں مسلم و غیر مسلم تنظیموں کے رہنماؤں، مختلف امبیسیز، میڈیا ہاؤس کے ذمہ داروں کے علاوہ ایک خاصی تعداد نے شرکت کی۔

اس پروقار تقریب کا آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا اور اس کے بعد امیر جماعت اسلامی ہند مولانا سید جلال الدین عمری صاحب نے تمام لوگوں کو خیر مقدم کیا اور عید کی پر خلوص مبارکباد پیش کی۔ اس کے بعد مولانا موصوف کا حالات حاضرہ پر انتہائی اہم اور پر مغز خطاب ہوا۔ مولانا نے جن اہم باتوں کی طرف رہ نمائی فرمائی ان خلاصہ درج ذیل ہے:

1۔ رمضان میں اللہ تعالی سے ہمارا تعلق مضبوط ہوتاہے۔ اس کے لیے تکلیفیں برداشت کرنے کا جذبہ ابھرتاہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کا احساس ابھرتاہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن مجید ہماری راہ نما کتاب ہے، اسی سے ہمیں راہ نمائی حاصل کرنی چاہیے، اس پر ہمارا ایمان تازہ ہوتاہے۔ رمضان میں عبادات کی طرف ہماری توجہ بڑھتی ہے اور اللہ کی یاد تازہ رہتی ہے۔ رمضان میں ہم لغو اور فضول باتوں اور فضول کاموں سے بچتے ہیں اور اپنے اوقات کو بہتر طریقہ سے استعمال کرتے ہیں۔ رمضان ہم دردی، غم خواری اور مواسات کا مہینہ ہے۔ اس میں دوسروں کے دکھ درد کو سمجھنے اور ان کے کام آنے کا جذبہ ابھرتاہے۔

2۔ اس وقت ہمارے سامنے برادران اسلام کے ساتھ غیر مسلم برادران وطن بھی ہیں۔ آپ سب ہی سے بعض باتیں عرض کرنی ہیں۔ اس ملک کی ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ یہاں فرقہ وارانہ ہم آہنگی ہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہر فرقہ اپنی انفرادیت ختم کرکے دوسرے میں ضم ہوجائے۔ یہ غیر فطری اور ناقابلِ عمل ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ ہر گروہ اپنی انفرادیت کو باقی رکھتے ہوئے، دوسروں کے ساتھ مل جل کر زندگی بسرکرے۔ اس سے باہم محبت اور الفت بڑھے گی اور ایک دوسرے کے حقوق کا احترام ہوگا۔ سب مل کر ملک کی فلاح کے بارے میں سوچ سکیں گے۔ اس کے لیے سب کا تعاون حاصل ہوگا۔

3۔ ملک میں اس ماحول کو خراب کرنے اور اس فضا کو مکدر کرنے کی کوشش بھی ہو رہی ہے۔ اس وقت ملک کے ایک طبقہ میں، یا یوں کہیے کہ بعض لوگوں میں یہ احساس ضرورت سے زیادہ ہی ہے کہ ملک ان کا ہے، یہاں کے وسائل ان کے ہیں اور اقتدار ان کا ہے۔ ترقی کے مواقع ان ہی کے لیے ہیں۔ یہاں وہ ہر طرح محفوظ ہیں، وہ جو چاہے کرسکتے ہیں۔ ان پر گرفت آسان نہیں ہے۔ اسی کا مظاہرہ ہے جو Mob Linching یا گائے کے تحفظ (Cow Protection) یا عبادت گاہوں پر حملوں کی شکل میں ہوتارہتاہے اورمختلف مواقع پر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتاہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی ہوتی ہے، لیکن مختلف وجوہ سے وہ غیر موثر ہے، ایسی نہیں ہے کہ یہ لوگ اپنی جارحیت سے باز آجائیں۔

4۔ یہ کہاجاسکتاہے کہ اقلیتوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات چند ایک ہیں۔ اتنے بڑے ملک میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ لیکن یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ اس سے خوف اور دہشت کا جو ماحول پیداہوا ہے وہ انتہائی تشویش ناک ہے۔ اقلیتوں میں یہ احساس ابھر رہاہے کہ وہ یہاں غیر محفوظ ہیں، ان کے لیے ترقی کے مواقع نہیں ہیں، یا محدود ہیں۔ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال نہیں کرپارہے ہیں۔

5۔ ملک میں اقلیتوں اور کم زور طبقات کے ساتھ جو نانصافی ہورہی ہے اس پر بہت سے سوچنے سمجھنے والے افراد اور معروف اسکالرس وقتاً فوقتاً آواز اٹھاتے ہیں اور انسانی حقوق کے لیے متحرک تنظیمیں بھی اس کے خلاف بولتی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اب بین الاقوامی سطح پر بھی اس کا تذکرہ ہونے لگا ہے، جس سے ملک کی تصویر بگڑتی ہے۔ اس میں شک نہیں، حالات کو ٹھیک کرنا اور اقلیتوں اور کم زور طبقات کو اعتماد میں لینا حکومت کاکام ہے۔ اس کی طرف اس کی توجہ نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ ہم سب کی بھی ذمہ دارای ہے کہ ملک کی فضا کو بہتر بنائیں اور اقلیتوں میں جو خوف و ہراس پایا جاتا ہے اسے دور کریں اور ان میں اعتماد کا ماحول پیداکریں۔ اس کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھانی ہوگی اور فرقہ پرست طاقتوں کا سختی سے مقابلہ کرناہوگا۔

6۔ ہمارا سماج ایک تکثیری (Plural ) سماج ہے، جہاں مختلف مذاہب ہیں، کلچر کا اختلاف ہے اور زبانیں بھی مختلف ہیں۔ ملک کے بہت سے مسائل ہیں۔ ان کے حل کے بارے میں ہمارے درمیان اختلاف ہوسکتاہے اور ہوگا۔ اسے برداشت کرنا ہوگااور اس اختلاف کو حل کرنے کے لیے بحث و مباحثہ اور Dialogueکا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہم ایک دوسرے کو حریف سمجھنے، اس کے نقطۂ نظر کو دشمن کا نقطہ ٔنظر تصور کرنے کی جگہ ، اسے سمجھنے کی سنجیدہ کوشش کریں۔ بحث و مباحثہ اور گفتگو سے بہت سے مسائل حل ہوتے ہیں۔ بسا اوقات اس سے عداوتیں ختم ہوتی ہیں اور دوستی و رفاقت کی راہیں کھلتی ہیں۔ کیوں نہ ہم اپنے ملک میں تقریر و تحریر کے ذریعہ آپس میں تبادلۂ خیال کا راستہ نکالیں ۔اس کوشش میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا تعاون نہایت ضروری ہے۔ ملک کے مفاد میں اسے تعاون کرنا ہی چاہیے۔ اس سے امید ہے کہ موجودہ فضا بدلے گی۔ گفتگو سے حریف طاقتیں اور ایک دوسرے کے دشمن ممالک اپنے مسائل کا حل نکال لیتے ہیں۔ اس کی تازہ مثال ٹرمپ اور شمالی کوریا کے صدر کی ملاقات اور گفتگو ہے۔

7۔ مشرقی جرمنی اور مغربی جرمنی کا اتحاد زیادہ پرانی بات نہیں ہے۔ کیا ہم اپنے وطن میں باہم گفتگو اور تبادلۂ خیال سے مسائل حل نہیں کرسکتے؟یوں محسوس ہوتاہے جیسے اختلافات کو دور کرنے کے لیے ایک میز کے گرد جمع ہونے سے ہم گھبراتے ہیں؟ آخر یہ راستہ ہم کیوں نہیں اختیار کرتے؟

8۔ اس وقت ملک کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ نفرت اور عداوت کی جو آندھی چل رہی ہے اسے محبت، خیر خواہی اور افہام و تفہیم کی ٹھنڈی اور خنک ہوائوں میں تبدیل کیاجائے۔ اس کے لیے جرأت و ہمت کے ساتھ ہم سب کو سامنے آنا ہوگا۔ یہ مجمع، جوموجودہ حالات سے متفکر اور پریشان ہے اور حالات کو بدلنا چاہتاہے، وہ اگر کھڑا ہوجائے تویقین ہے کہ اس ملک کے بہی خواہ اور انسانوں کے ہم درد اس کا ساتھ دیں گے، ملک کے سارے ستم رسیدہ اس کے دوش بدوش کھڑے ہوں گے، جن کے حقوق پامال ہورہے ہیں وہ اس کی صف میں نظر آئیں گے۔ اس سے ایک تحریک شروع ہوگی اور ملک کو صحیح راہ دکھائی جاسکے گی۔ وہ راہ، جس میں مساوات، عدل و انصاف اور حقوق کی پاس داری ہو اور کوئی کسی پر دست درازی نہ کرسکے۔ آئیے، اس سمت میں بڑھیں۔ یہ ملک آپ کے انتظار میں ہے۔

____محمد اسعد فلاحی