از:- نفیس ندوی
کاس گنج کا نام اب محتاج تعارف نہیں رہا، یوم جمہوریہ کے موقع پر فرقہ وارانہ فسادات کی وجہ سے یہ علاقہ سرخیوں میں تھا.
مؤرخہ21جون کو موسم کی سختی کے باوجود دوپہر کا ایک وقت یہیں گزارنے کا اتفاق ہوا،
یہ علاقہ بہت ہی گنجان آبادی کا ہے، اکثریت غیر مسلموں کی ہے، مسلم آبادی کا تناسب بارہ سے پندرہ فیصد بمشکل ہوگا،
یہاں کے مسلمان معاشی اور تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں، عام طور پر نچلے درجہ کی نوکریاں کرتے ہیں، معاشی پستی کی وجہ سے معیار زندگی بھی بہت پست ہے، اور تعلیم کی کمی کی وجہ سے مذہبی واخلاقی پستیاں بھی ہیں، اس پستی کا اندازہ صرف اس سے کیا جاسکتا ہے کہ مسلم لڑکیاں عام طور پر غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرلیتی ہیں اور اس پر کوئی سخت ردعمل بھی سامنے نہیں آتا، چاہے وہ لڑکے بھنگیوں کے ہی کیوں نہ ہوں.
کاس گنج کا علاقہ آزادی ہند سے پہلے خاصا مشہور تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ علاقہ شروع سے ہی سخت گیر ہندوؤں کا مرکز رہا ہے، آر ایس ایس کی بنیاد اگرچہ ناگپور میں پڑی لیکن اس کا تخیل یہیں کاس گنج سے پیدا ہوا تھا، آج بھی یہ آر ایس ایس کا مضبوط گڑھ ہے، بڑے بڑے سنگھی لیڈروں کا آنا جانا لگا رہتا ہے حتی کہ امت شاہ کا بھی دورہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ ساری خبریں میڈیا سے کوسوں دور رہتی ہیں…
یہاں کے مسلمان عملا بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہیں لیکن علمی ومعاشی پستی کی وجہ سے بدعات میں شدت نہیں ہے نیز ایک بڑی تعداد اہل حق مسلمانوں کی ہے اور انہیں کا غلبہ بھی ہے، چھوٹے بڑے کئ مدرسے بھی ہیں ، اور یہ سارا فیض حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کا ہے. شاہ صاحب نے اس علاقہ میں خاصا وقت لگایا ہے اور آج جو خاندان یہاں کی جامع مسجد اور دینی مدارس میں خدمات انجام دے رہا ہے وہ شاہ صاحب کا ہی مسترشدوفیضیاب ہے…
کاس گنج آر ایس ایس کا گڑھ رہا ہے اور آج بھی یہاں پر شدت پسندی محسوس کی ججاتی ہے،قدم قدم پر مندر اور بھگوا رنگ کے جھنڈے اس کا بین ثبوت ہیں،ف
لیکن ہندوؤں میں بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو انسانیت پر یقین رکھتی ہے، ورنہ سالوں سے جس طرح ان کا غلبہ ہے مسلمانوں کی زندگیاں اجیرن ہوچکی ہوتیں اور فسادات کا ایک سلسلہ قائم رہتا اور کسی بھی فساد میں مسلمانوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوجاتی اور اس پر کچھ رتعجب بھی نہ ہوتا، لیکن حالیہ فساد میں مسلمانوں ز مالی نقصان ضرور ہوا تاہم ان کی جانیں پوری طرح محفوظ رہیںم
اس فساد میں ایک ہندو جوان مارا گیا تھا جو کہ کہا جاتا ہے کہ خود پولیس کی گولی سے مرا تھا، وہ بھی ایک لیڈی پولیس کے ذریعہ جس کے ساتھ اس نے کبھی تھانہ میں بدتمیزی کی تھی، اگرچہ میڈیا نے اسے کچھ دوسرا ہی رخ دیا تھا لیکن وہاں کے عوام اس حقیقت کے گواہ ہیں…
کاس گنج میں قیام اگرشچہ بہت طویل نہیں تھا لیکن جتنی مدت رکنا ہوا حاشلات سے واقفیت ہوتی رہی، فساد زدہ علاقوں سے بھی گزرنا ہوا، لوگوں سے ملنا اور باتیں کرنا بھی ہوا اورآخرش ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ کاس گنج میں *پیام انسانیت* کے کام کی سخت ضرورت ہے…
مسلمان تعلیم کے اور ہندو انسانیت کے محتاج ہیں،اور وہاں کی فضاایک بڑی تبدیلی کی متقاضی ہے،
ضرورشت ہے پیام انسانیت کے ذمہ داران اس طرف توجہ دیں تو تعصب وسخت گیری کا یہ علاقہ انسانیت نوازی کی طرف مائل ہوسکتا ہے.