مودی جی !اب تماشہ بند کیجئے اور ملک کا کچھ کام بھی کیجئے  

مضمون نگار : معروف صحافی، ڈاکٹر ظہیر انصاری

tahreerenav2@gmail.com

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ورزش کرتا ہوا ایک ویڈیو ڈال کر ہمارے وزیر اعظم نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ گزشتہ ۴؍برسوں سے وہ صرف اور صرف خود کو ہر جگہ پروجیکٹ کرنا چاہتے ہیں خواہ اندرون ملک ہو کہ بیرون ملک۔اتنے سارے ملکوں کا سفر کرنے کے بعدہندوستان کو کیا ملا؟اب یہ سوال ہر ہندوستانی پوچھ رہا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہا جاتا ہے کہ جس آدمی کے پاس جو ہوتا ہے وہ وہی دکھاتا ہے۔کوئی ضروری نہیں کہ جو چیز وہ دکھا رہا ہواس سے دوسرے قائل اورمستفیض بھی ہو سکیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ چیز اچھی ہو لیکن اسے اپنانے والے بہت ہی کم ہوں۔اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کے بغیر کام بھی نہ چلے۔ہمارے وزیر اعظم کو نت نئی موشگافیاں کرنے کا حد درجہ شوق ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی سب کچھ ہے اور اسے اپنا کر سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ بات ایسی نہیں ہے۔یہ آپ کا ذاتی فعل اور عمل ہو سکتا ہے لیکن دوسرے بھی اس سے اسی درجہ محبت کریں ،کوئی ضروری نہیں۔ملک کے عوام نے آپ کو وزیراعظم بنایا ہے تو آپ وزیر اعظم والا کام کریں نہ کہ اِس سے ہٹ کر کوئی اور کام ۔آپ پچاسوں دیگر کام کر سکتے ہیں لیکن اُن کی نوعیت ذاتی ہو گی نہ کہ عوامی ۔دراصل ہمارے وزیر اعظم کو یہ غلط فہمی ہو گئی ہے کہ وہ کچھ ’’الگ‘‘ ہیں اوروہ چاہتے ہیں کہ لوگ ان کی ہر حال میں پیروی کریں۔حالانکہ وہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بات کرتے ہیں اورہر میدان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے نفاذ کی وکالت کرتے ہیں لیکن خود سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے غافل پائے جاتے ہیں۔انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ جس دور میں ہم جی رہے ہیں وہ عقیدت کا دور نہیں ہے۔وہ زمانے لد گئے جب عقیدت میں لوگ اپنا سب کچھ لُٹا دیتے تھے۔تھوڑی دیر کے لئے لوگوں کی آنکھوں پر پٹی بندھ سکتی ہے لیکن بہت جلد لوگ اِس پٹی کو نکال پھینکتے ہیں اور عقیدت کا یوں جنازہ نکل جاتا ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کسی کے ذریعے دئیے گئے ’فِٹنیس چیلنج‘ کو قبول کر رہے ہیں اور اِس چیلنج کو قبول کر کے دوسروں کو چیلنج پیش کرر ہے ہیں کہ وہ اپنی ’فِٹنیس‘کو ثابت کریں۔یہ کس قدر بچکانہ بات ہے۔ایسا لگتا ہے وزارت کا میدان نہ ہو بلکہ پورا ہندوستان ایک کھیل یا ورزش (اتھلیٹس)کا میدان بن گیاہو۔اس بابت بات شروع ہوتی ہے کھیل کے مرکزی وزیر ہرش وردھن راتھوڑ کے ایک ٹویٹ سے ، جس میں انہوں نے کرکٹ کھلاڑی وِراٹ کوہلی کو اپنی فٹنیس بتلاتے ہوئے یہ چیلنج کیا تھاکہ وہ (وِراٹ) اپنی فِٹنیس پیش کریں۔۴۰؍سیکنڈ کا ورزش کرتے ہوئے ایک ویڈیو وِراٹ نے ٹویٹر پر ڈال دیا اور یہ لکھا کہ مجھے راتھوڑ جی کا چیلنج قبول ہے اور اب میں وزیر اعظم مودی ،اپنی بیوی انوشکا شرما اور میرے پیارے بھائی دھونی کو بھی چیلنج پیش کرتا ہوں کہ وہ اپنی فٹنیس ثابت کریں۔انوشکا اور دھونی کا تو ابھی کوئی جواب نہیں آیا لیکن وزیر اعظم نے بڑی مستعدی دکھائی اور اپنی ورزش کرتے ہوئے پونے ۲؍ منٹ کا اپناویڈیو ٹویٹر پر پوسٹ کر دیا اور ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ اب میں وزیر اعلیٰ کرناٹک کمار سوامی،ہندوستان کے لئے زیادہ سے زیادہ میڈل حاصل کرنے والے مَنِکا بترا اور اُن آئی پی ایس آفیسروں کو چیلنج پیش کرتا ہوں جن کی عمریں ۴۰؍ برس سے تجاوز کر گئی ہیں کہ وہ اپنی فِٹنیس پیش کریں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِن سب کی ضرورت کیوں پیش آئی۔تھوڑی دیر کے لئے مان لیتے ہیں کہ راتھوڑ نے اپنی برادری کے وِراٹ کو یہ چیلنج پیش کیا حالانکہ اِس کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔جن کا پیشہ ہی کھیل کود ہو اُنہیں تو ہر حال میں فِٹ اور فعال رہنا ہے، اس لئے وِراٹ کوہلی کی فِٹنیس پر شک کرنے کا کوئی جواز نہیں۔وِراٹ کوہلی نے ،چلئے مان لیتے ہیںکہ ،دھونی اور اپنی بیوی کو چیلنج پیش کردیا۔اگرچہ دونوں کو ہی اپنے اپنے پیشے کے اعتبار سے فِٹ رہنا ہے اِس میںنصیحت کی چنداں ضرورت نہیں۔ہم یہ بھی مان لیتے ہیں کہ اپنی بیوی کو وہ بہت قریب سے جانتے ہیں اور انہوں نے یہ محسوس کیا ہو کہ اُن کی فِٹنیس پر کہیں ضرب آگئی ہو جس کا سُدھار ضروری ہے اور یہی بات دھونی کے لئے بھی کہی جا سکتی ہے کہ وہ وِراٹ کے ساتھی ہیں اور ممکن ہے کہ دھونی کی عمر کے ساتھ اُن کی فِٹنیس کہیں متاثر ہوئی ہو اور وِراٹ انہیں نیک مشورہ دینا چاہتے ہوں لیکن وہ مودی جی کے قریب بھی نہیں ہیں اور نہ ہی اُن کی عدم فِٹنیس یا فِٹنیس کی حقیقت کو جانتے ہیں۔پھر یہ کیونکر ممکن ہوا کہ اُنہوں نے وزیر اعظم کوچیلنج پیش کر دیااور اُنہوں نے قبول بھی کرلیا اور آناًفاناً اس کا مظاہرہ بھی کر دیا۔

غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ سب کچھ پہلے سے طے تھا۔ایک سکرپٹ لکھی گئی اور پھر اس پر عمل کیا گیا ورنہ کام کاج سے اِن سب چیزوں کی کوئی نسبت نہیں۔جو شخص اتنے دنوں سفر میں رہا ہو خواہ وہ ملکی سفر ہو کہ غیر ملکی، دنیا بھر کے اعلیٰ عہدے داروں سے جس کا ملنا رہا ہو،الیکشن مہم میں جس نے ایک خاصی مدت گزار دی ہو،اُس کو کب موقع ملتا ہوگا کہ وہ یوگا اور ورزش کر سکے؟ کبھی کبھار کر لیتا ہوگا لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ روزانہ کر سکے۔اس لئے تمام باتیں صرف شہرت کے لئے ہیں اور کچھ بھی نہیں۔پونے ۲؍منٹ کے ویڈیو میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح مودی جی ایک بڑے پتھر پر لیٹ رہے ہیں ،اُٹھ رہے ہیں ،اوبڑکھابڑ زمین پر چل رہے ہیں،ہلکی اونچائی کے باؤنڈری پر دوڑ رہے ہیں وغیرہ وغیرہ۔کیا یہ سب’ شوبھا‘ دیتا ہے ایک وزیر اعظم کو؟ اور کیا لوگوں نے اس لئے چنا تھا کہ یہ سب دیکھیں۔مودی جی کا یہ ورزش والاویڈیو دیکھ کرانوپم کھیر نے ایک ٹویٹ کیا کہ مودی ایک’ راک اسٹار‘ہیں۔انوپم جی کو پتہ ہے کہ نہیںکہ لوگوں نے ایک راک اسٹار کو نہیں بلکہ ایک مخلص شخص کا انتخاب کیا تھا تاکہ وہ ان کا کچھ کام کر سکے۔ان کے مسائل کا حل کر سکے اوردیش کو خوشحالی کی جانب لے جائے۔ چمچہ گیری میں اِس حد تک بھی نہ جایا جائے کہ سارا بھرم ٹوٹ جائے۔

مَنِکا بترا نے ملک کے لئے سب سے زیادہ میڈل لائے ہیں۔مودی جی انہی کو چیلنج کر رہے ہیں کہ وہ اپنی فِٹنیس پیش کریں۔ہے نا بے تکی بات۔وہ خود ہی ایک اتھلیٹس ہیں اور بغیر فِٹنیس کے یہ ممکن نہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ میڈل لا سکیں۔اس کا مطلب ہے کہ مودی جی کو بترا سے کوئی نہ کوئی خلش ہے ۔کمار سوامی نے بڑا ہی جاندار اور شاندار جواب دیا ہے کہ اگرچہ وہ روز یوگا کرتے ہیں اور اپنے کام کی حد تک وہ فِٹ ہیں لیکن انہیں اپنی فِٹنیس سے زیادہ صوبے کی فِٹنیس عزیز ہے ۔صوبے کی فِٹنیس کو اعلیٰ رکھنے کے لئے وہ مودی جی کی مدد کے بھی خواستگار ہیں۔پتہ نہیں مودی جی کو کمارسوامی کا جواب کیسا لگا لیکن جواب میں خاصا دَم ہے۔کرناٹک کے حالیہ شکست کو مودی جی بھول نہیں پائے ہیں اور ممکن ہے کہ ایسی شکست کو وہ زندگی بھر نہیں بھول پائیں کیونکہ صرف ۷۔۸؍سیٹوں کے فرق سے وہاں اُن کی حکومت نہیں بن سکی ۔کمارسوامی سے پہلے اگرچہ بی جے پی کی یدی یورپا کی حکومت ویسے وہاں بنی تھی لیکن’ سیکولر سیکولر‘کی بازگشت اس قدر تیز ہوئی کہ مودی میجک ناکام ہو گیا اور الیکشن جیتنے کی مشین امیت شاہ’ دونوں شانے‘ چِت ہو گیا اور اس طرح بی جے پی کی حکومت ڈیڑھ روزہ ثابت ہوئی۔ویسے مودی اور امیت شاہ نے یہ ظاہر کیا تھا کہ جو خرید و فروخت کرناٹک میں ہورہی تھی اُس سے دونوں لا تعلق تھے لیکن جو ٹیس حکومت جانے کے ساتھ رہ گئی تھی وہ ابھی بھی برقرار ہے ورنہ اپنے ٹویٹ میں مودی ،کمارسوامی کا نام لینے کے بجائے کسی اور کا لیتے۔مودی کی پریشانی یہ ہے کہ کرناٹک سے ہی ملک کا سیاسی داؤ پیچ بدلنا شروع ہو گیا اور جگہ جگہ بی جے پی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی بات ہونے لگی۔اس سے یہ لگنے لگا کہ اب مرکز میں مودی کے دن گنتی کے رہ گئے ہیں۔

اس ورزش والے ویڈیو کو ڈال کر مودی جی نے یہ ثابت کر دیا کہ گزشتہ ۴؍برسوں سے وہ صرف اور صرف اپنے چکر میں رہتے ہیں۔خود کو ہر جگہ پروجیکٹ کرنا چاہتے ہیں خواہ اندرون ملک ہو کہ بیرون ملک۔اتنے باہری ملکوں کا سفر کرنے کے بعد ملکِ ہندوستان کو کیا ملا؟یہی ہندوستانی عوام اب پوچھ رہے ہیں جس کا جواب دیتے نہیں بن رہا ہے۔اسی لئے عوام کو نت نئے چکروں میں پھنسانا چاہتے ہیں وہ۔چند دنوں پہلے ملک کی ایک ایجنسی نے یہ دعویٰ کیا کہ مودی جی کو جان سے مارنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ ماؤ وادی کرنا چاہتے ہیں ۔اس تعلق سے کچھ خطوط بھی پکڑے گئے ہیں جن کی بنا پر کچھ لوگوں کی گرفتاری بھی عمل میں آئی ہے۔وہ خطوط کتنے سچے ہیں آنے والا وقت بتا دے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ گجرات کا ریہرسل یہاں کرنے کا منصوبہ ہے تاکہ لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کی جا سکیں،لیکن مودی جی کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ گجرات نہیں بلکہ ملکِ ہندوستان ہے!اِس میں ہمارے وزیر اعلیٰ دیویندر فرنویس بھی کود پڑے ہیں کہ اُن کی جان کو بھی خطرہ ہے۔بھلا بتلائیے جس شخص کو وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے کوئی جانتا تک نہ رہا ہواُس کی جان کے پیچھے کوئی تنظیم کیسے پڑ گئی ،یہ سمجھ سے بالا تر ہے۔وزیر اعلیٰ بنتے ہی اگر کوئی اس درجے پر پہنچ جاتا ہے تو واقعتاًیہ اس کی بڑی کامیابی ہے۔ویسے کوئی دوسری کامیابی تو ریاستِ مہاراشٹر میں نہیں دکھائی دیتی ۔اسی کو مان کر ہم خوش ہو لیتے ہیں۔حیرت کی بات یہ ہے کہ سیکڑوں کمانڈوز کے ساتھ چلنے والے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو خطرہ درپیش ہو تو یہ انٹیلی جینس اور پولیس فورس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔

بہرکیف ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات کے نزدیک آتے آتے ابھی بہت کچھ سننے اور دیکھنے کو ملیں گے۔ملک کے حالات اور بھی دگرگوں ہوں گے۔فِٹنیس چیلنج کے تعلق سے ایک شہری نے کیا خوب جواب دیا ہے کہ ’’اگر فِٹنیس چیلنج ہمارے وزیر اعظم پیش کرتے ہیں تو کیوں نہ ہم انہیں فُویل چیلنج(Fuel Challenge) پیش کریں۔اسی طرح ملک کے تقریباً ۱۵؍لاکھ پیرا ملٹری فورسیز اور مختلف صوبوں کے تقریباً ۲۵؍ لاکھ پولیس فورسیز کے زیادہ تر لوگوں نے وزیر اعظم مودی کی اِس فٹنیس چیلنج کو چیلنج نہیں بلکہ اپنے اوپر ایک حملہ سمجھا ہے کیونکہ ان کے پیشے کا جواز اور بنیاد ہی یہی فِٹنیس ہے۔چند اگر اس میں پورے نہیں اترتے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ سب کے سب ناکارہ ہیں۔٭