دوہری عیدِ سعید مضمون نگار : ڈاکٹر سلیم خان ایڈوکیٹ للن سنگھ نے جیل کے دروازے پر بچپن کےدوست کلن ّ خان کو دیکھ کر پوچھا بھائی ادھر کیسے؟تم تو کسی مدرسے میں پڑھانے چلے گئے تھے ۔ مکمل مضمون کے لیے بلیو لنک کو کلک کیجئے
مضمون نگار : ڈاکٹر سلیم خان، آمنا سامنا میڈیا
ایڈوکیٹ للن سنگھ نے جیل کے دروازے پر بچپن کےدوست کلن ّ خان کو دیکھ کر پوچھا بھائی ادھر کیسے؟تم تو کسی مدرسے میں پڑھانے چلے گئے تھے ۔ مکمل مضمون کے لیے بلیو لنک کو کلک کیجئے آمنا سامنا میڈیا
ایڈوکیٹ للن سنگھ نے جیل کے دروازے پر بچپن کےدوست کلن ّ خان کو دیکھ کر پوچھا بھائی ادھر کیسے؟تم تو کسی مدرسے میں پڑھانے چلے گئے تھے ۔کلن بولا یارکیا بتائیں للن وہ جو اعظم گڈھ میں دھماکے ہوئے تھے نا اس میں نہ جانے کیسے میرا نام آگیا اور مجھے گرفتار کرکے یہاں بھیج دیا گیا۔
ارے یہ تو انرتھ ہوگیا تو اب تم باہر ہو؟
وہ ایسا ہوا کہ عدالت نے میری اور میرے ساتھ گرفتار ہونے والے چار اساتذہ کی ضمانت کردی لیکن ہر ایک کے لیے ایک لاکھ کا مچلکہ مسئلہ بن گیا ۔ اب رمضان آیا تو کسی اجنبی نے میرے لیے ایک لاکھ جمع کرکے مجھے چھڑوا دیا۔
اجنبی نے؟ میں نہیں سمجھا ۔ اس کو تم سے ہمدردی کیسے ہوگئی؟
وہ ایسا ہے کہ رمضان میں لوگ زکوٰۃ کا نکالتے ہیں ۔ اس سے قیدیوں کوبھی چھڑایا جاتا ہے ۔ اس کے تحت کسی نے پچھلے ہفتہ میری گردن چھڑا دی ۔
لیکن جب وہ تمہیں جانتا تک نہیں تو اس کا کیا فائدہ؟
ارے بھائی زکوٰۃ فائدہ اٹھانے کے لیے تھوڑی نہ دی جاتی ہے؟ وہ تو اپنے رب کی خوشنودی کے لیے نکالی جاتی ہے جو سب جانتا ہے۔
بہت خوب لیکن آج پھر تم لوٹ کر کیوں آئے ؟
میرے چار بے قصور ساتھی ہنوز جیل میں اس لیے گھر پر مجھے نیند نہیں آئی۔ میں نے سوچا کیوں نہ ان کو چھڑانے کی سعی کی جائے ۔
جی ہاں یہ تم نے بہت اچھا سوچا۔ وہ انسان ہی کیا جو دوسروں کے کام نہ آئے؟
صحیح کہا تم نے ۔ میں اللہ کے بھروسے لوگوں سے بات چیت شروع کی اور دیکھتے دیکھتے چار لاکھ کی رقم جمع ہوگئی۔ کل ہم لوگوں نے وکیل کی معرفت عدالت میں ضمانت کی رقم جمع کردی اور آج اپنے ساتھیوں کی رہائی کا پروانہ لے کر آئے ہیں ۔
یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے۔ مجھے وشواس ہے کہ اس پونیہ کے بعد تمہاری آتما چین کی نیند سوئے گی۔ میں تو کہتا ہوں اسی لیے سب سے پہلے تم رہا ہوئے تھے تاکہ ان لوگوں کو بھی آزادی دلاو۔
نہیں بھائی ایسی بات نہیں یہ تو اوپر والے کی مہربانی ہے۔
اس میں شک شبہے کی کیا بات ہے کلن اگر اوپر والے کی کرپا نہ ہو اس دنیا میں ایک پتہ بھی نہیں ہل سکتا ۔
للن تمہاری بات درست ہے لیکن مجھے تو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ کل عید کا تہوار ہے اور آج یہ بیچارےرہا ہو کر اپنے اہل خانہ سے جاملیں گے ۔
جی ہاں عید تو ویسے ہی ملنے ملانے کا موقع ہوتا ہے ۔ لوگ اپنے اعزہ و اقارب سے ملتے ہیں لیکن تم نے اپنے علاوہ دوسروں کا بھی خیال کیا ۔
للن بات یہ ہے کہ وہ انسان ہی کیا جو دوسروں کو اپنی خوشی میں شریک نہ کرے اور میں تو انہیں میں سے ایک ہوں ۔
تمہاری یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کلن ؟ کیا وہ تمہارے رشتے دار ہیں؟
جی نہیں جب انسان روزہ رکھتا ہے تو فاقہ کشوں کی بھوک کا احساس کرتا ہے اور جب جیل جاتا ہے تو زنداں کے ساتھیوں کی قید و بند کو محسوس کرتا ہے۔ ابھی تو صرف ضمانت ہوئی ہے ۔ آگے ہمیں مقدمہ بھی ایک ساتھ ہی لڑنا ہے۔
دیکھو کلن جو دوسروں کے کام آتا ہے اوپر والا اس کے کام بناتا ہے۔ مجھے یقین ہے تم بری ہوجاوگے ۔ میرے لائق کوئی سیوا ہوتو بتانا۔عید مبارک ۔