کاشف جمیل اور بھیو جی مہاراج
ایک انجنیر ہے دوسرا دھرم گرو لیکن دونوں کا سابقہ سیاستدانوں سے پڑا ہے۔ ایک مسلمان ہے دوسرا ہندو لیکن دونوں ہندوتوا کی سیاست کا شکار ہوئے ہیں ۔ ایک موت سے لڑ رہا ہے اور دوسرا موت کی نیند سوچکا ہے۔ ایک کو بچانے کے گورکھپور سے لکھنو لایا گیا ہے اور دوسرے کو انتم سنسکار کے لیے شمسان گھاٹ لے جایا گیا ہے
ڈاکٹر سلیم خان
کاشف جمیل اور بھیوجی مہاراج کے درمیان گولی کے علاوہ بھی بہت کچھ مشترک ہے۔ ایک کا تعلق اتر پردیش سے ہے اور دوسرے کا مدھیہ پردیش سے لیکن دونوں صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے۔ ایک انجنیر ہے دوسرا دھرم گرو لیکن دونوں کا سابقہ سیاستدانوں سے پڑا ہے۔ ایک مسلمان ہے دوسرا ہندو لیکن دونوں ہندوتوا کی سیاست کا شکار ہوئے ہیں ۔ ایک موت سے لڑ رہا ہے اور دوسرا موت کی نیند سوچکا ہے۔ ایک کو بچانے کے گورکھپور سے لکھنو لایا گیا ہے اور دوسرے کو انتم سنسکار کے لیے شمسان گھاٹ لے جایا گیا ہے ۔ ایک کو کسی نامعلوم نے گولی ماری لیکن وہ زندہ ہے اور دوسرے کوخود اس کی گولی نے ہلاک کردیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ انسان کے اپنے ہاتھوں سے چلائی جانی والی گولی دوسرے کی گولی سے زیادہ مہلک ہوتی ہے۔ کیا اس میں صاحب بصیرت لوگوں کے لیے کوئی سبق نہیں ہے؟ ڈاکٹر کفیل احمد کے چھوٹے بھائی کاشف جمیل کے بارے تو سبھی جانتے ہیں لیکن بھیو جی مہاراج کے بارے میں معلومات بھی کم دلچسپی کی حامل نہیں ہے۔
۵۰ سالہ بھیو جی مہاراج کا اصل نام ادیہ سنگھ دیشمکھ تھا۔ وہ عالیشان زندگی گزارتے تھے کیونکہ ان کا تعلق شجالپورکے زمیندار خاندان سے تھا۔ان کا اصل آشرم اندور میں باپٹ چوراہے پر ہے۔ خوبرو بھیوجی نے کسی زمانے میں فیشن ڈیزائنگ اور ماڈلنگ کا کام بھی کیا تھا لیکن خدمت خلق کے طور پر ان کا سد گرو مذہبی ٹرسٹ غریب طلباء میں وظیفہ تقسیم کرتااور قیدیوں کے بچوں کی تعلیم کا اہتمام کرتا تھا ۔ اس نے ہزاروں غریب لڑکیوں کی شادی بھی کرائی تھی اور یہ ادارہ کسانوں کو مفت میں بیج بھی تقسیم کرتا تھا ۔ بھیو جی نے ماحولیات کے حوالے سے جھیلوں کی ازسرنو تعمیر اوردرخت لگاؤ مہم کی مہم بھی چلائی تھی۔ بھیو جی مہاراج کے تعلقات مہاراشٹر کی معروف شخصیات مثلاً سابق صدر پرتبھا پاٹل، سابق وزیر اعلی ویلاس راؤ دیشمکھ، شرد پوار، لتا منگیشکر، اودھ ٹھاکرے ، راج ٹھاکرے، آشا بھوسلے، انورادھا پوڈوال، اور اداکار ملند گناجی گن وغیرہ سے تھے لیکن مودی جی اور بھاگوت جی کو بھی ان کے پرستاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
بھیو جی مہاراج پہلی باراس وقت سرخیوں میں آئے جب ۲۰۱۱ میں یو پی اے حکومت نے انھیں انا ہزارے کی بھوک ہڑتال ختم کرانے کے لیے بھیجا ۔آگے چل کرمودی جی نے وزیراعظم بننے کے چکر میں سدبھاؤنا اپواس رکھا تو اسے کھلوانے کے لیے بھی بھیو جی مہاراج کی خدمات حاصل کیں ۔ ان کے خودکشی کی اولین وجہ گھریلو و اسباب بتائے جارہے ہیں مگروہ آسارام باپو یا ساکشی مہاراج کی مانند پاکھنڈی سنیاسی نہیں تھے کہ جن پر عصمت دری کا الزام ہو۔ مودی جی یا بھوگوت جی کی طرح بھیو جی مہاراج اپنے برہمچاری ہونے کا ڈھونگ بھی نہیں کرتے تھے بلکہ وہ ایک جدید دھرم گروتھے۔ان کی پہلی زوجہ مادھوی کا دو برس قبل انتقال ہو گیاتو بیٹی اور والدہ کا خیال رکھنے کے لیے انھوں نے پچھلے سال مدھیہ پردیش کے شیو پوری کی ڈاکٹر آیوشی دوسری شادی کی ۔ اس لیے بھیوجی کا ازدواجی وجوہات سے خودکشی کرنا ناقابل فہم ہے۔
خودکشی کی دوسری وجہ سیاسی بتائی جاتی ہے۔کانگریس کا الزام ہے کہ انہوں نے بی جے پی صوبائی حکومت کے دباو میں یہ انتہائی اقدام کیا اس لیے سی بی آئی جانچ کرائی جائے۔بعید نہیں کہ مدھیہ پردیش حکومت کی جانب سے حال میں پیش کردہ وزیر کابینہ کے عہدے کو ٹھکرانا بھیو جی کی خودکشی کا سبب بنا ہو۔ مدھیہ پردیش کی صوبائی حکومت نے گزشتہ سال ۲ جولائی کو دعویٰ کیا تھا کہ نرمدا ندی کے کنارے ۵ء۶ کروڈ پودے لگائے گئے ہیں ۔ امسال ۲۸ مارچ کو اندور میں سنت سماج کے ایک اجلاس میں اس دعویٰ کو مہاگھوٹالہ قرار دیا گیا اوریکم اپریل تا ۱۵ مئی تک نرمدا گھوٹالہ رتھ یاترا نکال کر ریاست کے ۴۵ ضلعوں میں ان پودوں کی گنتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس یاتراکی قیادت کمپیوٹر بابا کرنے والے تھے اور اس کے منتظم پنڈت یوگیندر تھے جو بھوپال سیکرٹریٹ میں دھرنا دینے والے تھے۔
اس اعلان نے وزیراعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی نیند اڑا دی انہوں نے نے سادھو سنتوں کووزارت کے درجہ کی لالچ دے کررتھ یاترا ملتوی کر وادی ۔اس کے بعد کمپیوٹر بابا گھوٹالے کے الزام سے پلٹ گئے اور کہا کہ ہم عوام میں بیداری پیدا کریںگے۔ یوگیندر مہنت بھی پینترا بدل کربولے ، ‘ ہم گھوٹالہ کی بات نہیں کریںگے۔ایسے مشورہ دیںگے، جس سے نرمدا کا بہاؤ بڑھے۔ ‘اس معاملے سے پتہ چلتا ہے گیروا چوالہ اوڑھنے والے یہ سادھو سنت کس قدر پاکھنڈی ہوتے ہیں اور ہندوتوا وادی سیاستداں کس طرح ان کو سرِ بازار خرید لیتے ہیں ۔ مدھیہ پردیش کے اندر ویاپم گھوٹالے کی تحقیق کرنے والے نہ جانے کتنے صحافیوں اور آرٹی آئی کارکنان نے مشکوک حالت میں خودکشی کرچکے ہیں ۔ شیوراج چوہان کے راج میں حکومت کی مخالفت کرنے والے کے لیے خودکشی کے سوا کوئی متبادل ہی نہیں ہوتا ۔ اس لیے ممکن ہے خوددار بھیوجی مہاراج کے ساتھ بھی یہی ہوا ہو کیونکہ انہوں نے چوہان کی پیشکش کو ٹھکرادیا تھا ۔یہ حیرت انگیز اتفاق ہے کہ مودی جی کے راج میں اتنا بڑا دھرم گرو سیاسی دباو میں مایوسی کا شکار ہوکر خودکشی پر مجبور ہوجاتا ہے اور یوگی جیسے سفاک حکمراں سے سینہ سپر تین گولیاں کھانے کے باوجود دلیر مسلمان حوصلہ نہیں ہارتا ۔ زندہ رہنے کی تڑپ اس کو ازخود آٹو رکشا لے کر اسپتال لے آتی ہے ۔ یہ ہے اللہ پر توکل اور وہ بھروسہ جس سے دشمنان اسلام کی روح کانپتی ہے ۔ کاشف جمیل پر شاعر مشرق کے یہ اشعار صادق آتے ہیں ؎
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
طلب جس کی صدیوں سے تھی زندگی کو وہ سوز اس نے پایا انہیں کے جگر میں