نگرنگم کے تحت زیادہ تر مسلم علاقہ گندے پانی اور گندگی سے لبریز

سہارنپور (احمد رضا) گزشتہ ۲۰۱۴ جون سے نگر نگم کو مسلسل کروڑوں کا بجٹ پسماندہ ، ملن اور مسلم علاقوں کی ترقی اور بہتری کے لئے مل چکاہے مگر آج ۴۸ ماہ بعد بھی یہاں کے مسلم علاقہ پینے کے صاف پانی ، سیور لائن ، نالوں نالیوں کی صفائی پکی سڑکوں اورپانی کی نکاسی جیسی مشکلات سے جوجھ رہے ہیں مرکزی سرکار سے جو پیسہ ابھی تک نگم کو ملاہے اسکا کوئی حساب نہی وہ رقم کن علاقوں کی بہتری کے لئے استعمال ہوئی ہے اسکا بھی کوئی حساب یا جواب کسی افسر کے پاس نہی ہے نگم کے علاقوں کی ترقی کیلئے ملنے والی کرڑوں کی رقم کہاں لگی ہے کس طرح سے کس کس کام کیلئے اتنی بڑی رقم استعمال ہوئی ہے یہ سبھی باتیں شہری نگر نگم کے کاغذات میں اگر اندراج بھی ہیں تو بڑے عجیب انداز سے مگر یہ کہیں بھی ظاہر نہی ہے کہ جس کام کے لئے یہ پیسہ آیاہے وہ کام کہاں کہاں اور کیسے کیسے شفافیت کیساتھ کرایاگیا ہے اس سچ کا جواب علاقہ کے کسی بھی افسر یا ضلع انتظامیہ کے پاس آج بھی نہی ہے اور جو کام ہوئے ہیں وہ کام بھی آجتک موقع پر ثابت نہی ہیں؟
غور طلب ہیکہ سرائے حسام الدین،سرائے فیض علی،پل بنجاران، داؤد سرائے، چلکانہ روڑ ، چکروتہ روڑ ، نور بستی ، حسین بستی ، آزاد کالونی ، حبیب گڑھ کالونی، حاکم شاہ کالونی ، منصور کالونی ، دھوبی والا، کمیلہ کالونی ، نشاط روڑ، آلی آہنگران ، مہندی سرائے اور اسلامیہ ڈگری کالج سرائے حسام الدین،سرائے فیض علی،پل بنجاران، داؤد سرائے اور اسکے آس پاس کا ملی جلی ہندو مسلم آبادی والاعلاقہ گندگی ،نالیوں اور نالوں میں بھرے ہوئے چوڑے کی خطرناک بد بوؤں سے گھراہوا رہتاہے نتیجہ کے طور پر یہ تمام علاقہ تیز بدبو اور مچھروں کی بہتات سے دو چار ہیں عوام کا جینا محال ہے کوئی پرسان حال ہی نہی حیرت کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ سال ریاست میں بھاجپائی سرکار کے قیام کے بعد سے تو یہاں مسلم علاقوں کی حالت بد سے بد تر ہوچکی ہے نگم چناؤ میں جو مسلم پارشد جیتے ہیں ان میں سے زیادہ تر بھاجپائی میئر سنجیو والیا کے گروپ میں شامل ہوکر اپنے ووٹرس کے اعتماد کو شرمسار کرنے پر بضد ہیں ان علاقوں کے نالے اور نالیاں چوڑے سے بھرے ہوئے پڑے ہیں ضلع حکام بالخصوص نگر نگم کے صفائی ملازمین ہر روز آتے ہیں اور سر سرے طورپر ہلکی سی نمائشی طور پر صفائی کر کے چلے جاتے ہیں جبکہ گندگی اسی حالت میں ہی قائم رہتی ہے اکثر شہر کے پرانے علاقوں میں گزر ناممکن بن کر رہ گیا غلاظت اور گندے پانی کے سبب عوام کا بازاروں میںآناجانا بھی دشوار ہا اسکے علاوہ مندرجہ بالا ملی جلی آبادی والے پرانے اورپسماندہ علاقوں م میں آج جہاں دس لاکھ لوگ آباد ہیں یہاں ان علاقوں میں ہمیشہ ہی نالوں اور نالیوں کا پانی سڑکوں سے بہتے ہوئے گھروں میں گھسا رہتا ہے مچھروں کی پیداوار اس قدر ہے کہ ان جگہوں پر عام آدمی کا رہنا ناممکن ہے مگر غریبی کے ستائے مسلم لوگ ان علاقوں کو چھوڑکر جائے تو کہاں جائے حکام کو ان غریبوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں ہے گزشتہ پانچ سالوں سے ان لیڈران نے کبھی ان پسماندہ اور پچھڑے علاقوں کے بنیادی مسائل حل کرنے اور کرانے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی آج ان علاقوں میں پینے کا پانی بھی گندے جراسیم سے بھرا ہوا ہے ، غلاظت اور گندگی کے باعث ان علاقوں میں کھلی ہوا میں سانس لینا بھی دوبھر ہے جگہ جگہ غلاظت اور چوڑے کے انبار لگے رہتے ہیں عام لوگوں کا بالخصوص خواتین اور بچوں کا گزر مشکل سے مشکل تر ہو گیا ہے ہر وقت سڑکیں گندے پانی اور کیچڑ سے لبا لب رہتی ہیں جتنے بھی مسائب ان علاقوں کے پسماندہ مسلمانوں کو برداشت کرنے پڑ رہے ہیں وہ کسی جہنم کی تکلیف سے کم نہیں سچ مانو تو ان علاقوں کے مسلمانوں کا روز مرہ کا جینا جہنم سا ہو کر رہ گیا ہے مگر لاچاری اور مجبوری کے سبب لاکھوں لوگ گندگی اور مچھروں کی یلگار کے بیچ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں علاج کے نام پر اس علاقہ کے عوام کے لئے سرکاری سطح پر ان علاقوں میں اسپتال کا اسپتال میں معقول علاج کا کوئی بندو بست نہیں ہے ان علاقوں میں جو ادارہ کھلے ہیں ان کے باہر بھی گندگی کی بھرمار ہے سرکاری اسکول میں پانی بھرا رہتا ہے اور سرکاری اسکول کے اطراف بھی گندگی اور چوڑے کی بھرمار ہر وقت دیکھی جا سکتی ہے سڑکوں کا حال بیان سے باہر ہے جہاں تک پاور سپلائی کی بات ہے تو اسکے بارے میں ذکر فضول ہے کیونکہ سہارنپور نگر نگم تو بن چکا ہے مگر مسلم علاقوں کے لئے معقول گرانٹ نہ آنے کے باعث ترقی اور خوشحالیکے بہتر بندوبست سرکار اور انتظامیہ کی جانب سے آج تک نہی کرائے گئے ہیں جو گرانٹ مل رہی ہے وہ اونٹ کے منھ میں زیرہ کی مانند ہی ہے سینئر حکام ان پچھڑے علاقوں میں سدھار کے لئے تھوڑے بھی سنجیدہ نہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج دوسال کے بعد بھی حالت قابل رحم بنی ہوئی ہے! ہمارے قائدین کوبھی اپنے عوام کے بھلے کے لئے اپنے عوام کا حق اور انکے لئے آئے ہوئے پیسہ کا حساب مانگتے ہوئے شرم آتی ہے یہ ضرور ہے کہ وزراء کی چمچہ گری میں اور وزراء کی خاطربات بات پر بڑی رقم خرچ کرنے میں ان نیتاؤں کو نہ جانے کیوں فخر کا احساس ہوتاہے جبکہ عام آدمی پینے کے صاف پانی ، مچھروں کی بہتات اور غلاظت سے جنگ لہڑنیکو مجبور ہے !۔۔