ہریانہ میں نمازیوں پر حملہ کی وارداتوں میں اضافہ نیول گاؤں ا ورگروگرام علاقہ میں نمازیوں پر حملہ آوربدمعاش آزاد ؟
سہارنپور (احمد رضا) ہریانہ اسٹیٹ میں جب سے بھاجپا ئی سرکار کے چیف منسٹر منوہر لال کھٹٹرنے اقتدار کامورچہ سنبھالاہے تب سے وہاں موجود مختلف شعبوں اور کاموں سے منسلک سات لاکھ سے زائد مسلمانوں کیلئے پر امن طور سے نماز ادا کرنا بہت ہی مشکل ہوگیاہے از خد وزیر اعلیٰ نے کھلے میں یا نجی مقامات پر نماز اداکرنی پر سخت تنقید کی ہے اسی شہ پر اب مسلم ملازمین، مزدور، کاروباری اور طالب علموں کا مسجدوں کی کمی کے باعث نجی یا پبلک مقامات پر چھ منٹ کیلئے نماز ادا کرنا جی کا جنجال بن چکاہے شاطر افراد نمازیوں پر لگاتار حملہ کر رہے ہیں اخبارات بھی اس طرح کی نیوز بہت کم شائع کر رہے ہیں جس کا نتیجہ یہ سامنے آرہاہے کہ اب کھل؛ے عام نمازیوں کے ساتھ ساتھ مسجد کے اندر بھی کھس کر مارپیٹ اور توڑ پھوڑ کی وارداتیں عام ہونے لگی ہیں!یوپی کے شاطر گؤ رکشک دل کی طرز پر ہی پورے ہریانہ میں نماز مخالف ہندو وادی دل کے لوگ جہاں بھی آبادی، اسپتال، مارکیٹ یا کسی میدان میں مسلم افراد کو جمعہ، ظہر، عصر یا مغرب کی نماز اداکرتے ہوئے دیکھتے ہیں تبھی انپر درندوں کی طرح حملہ آور ہوجاتے ہیں گزشتہ عرصہ گروگرام میں نماز جمعہ اداکرتے ہوئے ہزاروں مسلم نمازیوں پر جابرانہ حملہ اور انکے ساتھ چھینا جھپٹی ولوٹ پاٹ کرنے جیسی شرمناک وارداتوں پر مذمت کا سلسلہ تھمانہی کہ گزشتہ دوروز قبل ہریانہ کے ہی نیول گاؤں میں مسجد کے اندر نماز ادا کر رہے نمازیوں پر اچانک بیس کے قریب افراد نے حملہ کر دیاگیا اور ملزم بے خوف گھوم رہے ہیں ماہ رمضان میں ہریانہ کے نمازیوں پر اس طرح کا یہ چوتھا حملہ ہے مگر سرکار تماشائی بنی ہے!ریاستی کانگریس کمیٹی کے ذمہ دار چودھری مظفر علی نے ہریانہ میں لگاتار مسلم طبقہ کو نماز سے روکنے، مارپیٹ کرنے اور مساجد کو نقصان پہنچانے جیسے غیر جمہوری اور غیر قانونی حرکات کی مذمت کرتے ہوئے حملہ آور ملزمان کیخلاف سخت دفعات کے تحت جلد کاروائی کی مانگ کی ہے، کانگریس کمیٹی کے ذمہ دار چودھری مظفر علی کا یہ بھی کہناہے کہ یہ بھاجپاکی گھنونی سازش کا ہی ایک حصہ ہے تاکہ دھیرے دھیرے مسلم طبقہ کو انکے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادی سے دستبردار کیا جاسکے چودھری مظفر علی نے اس نازک معاملہ کو سابق وزیر اعلیٰ ہڈا کے علاوہ کانگریسی سربراہ راہل گاندھی کے سامنے بھی اٹھایاہے اور ہریانہ میں قیام بزیر مسلم طبقہ کی جان ومال کی حفاطت کی مانگ کی ہے!
قابل ذکر ہیکہ گزشہ دوروز قبل کرنال کے نیول گاؤں میں مسلم آبادی میں واقع مسجد میں جوکچھ واقعہ پیش آیا اسکی جس قدر بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے نیول گاؤں کی مسجد میں پہلے نمازیوں کو مارا پیٹا پھر مسجد کو توڑا گیا شکایت کے بعد پولیس موقع پر آئی ملزمان کے خلاف معالہ درج کیا اور نمازیوں کے بیانات بھی لئے مگر تین روز بعد بھی ملزم آزاد گھوم رہے ہیں اسی طرح گروگرام کے نمازیوں پر حملہ کرنیوالے بھی شاطر ملزمان لمبے عرصہ بعد آج بھی آزاد ہیں ایسی حالت میں کرنال، گڑگاؤں اور گروگرام کے علاقہ میں کام کی غرض سے قیام پزیر سات لاکھ کے قریب مسلم افراد کیلئے گزربسر کافی مشکل اور جوکھم بھرا ہوگیاہے ؟