ڈاکٹر سلیم خان
ارشاد ِ ربانی ہے ’’ اور نفس انسانی کی اور اُس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا ‘‘۔ اس آیت میں رب کائنات نے اپنی ذات ِ والا صفات کے ساتھ نفس انسانی کی قسم کھائی ہے یعنی گواہ بنایا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نفس کیا ہے؟ انسانی وجود تین اجزاء کا مرکب ہے۔ ایک تو مٹی سے بنا جسم ہے کہ اس میں روح پھونکے جانے پروہ زندہ ہوجاتا ہے اسی لیے فرمایا ’’ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجئے کہ روح میرے پروردگار کے امر سے ہے ‘‘۔ ان دواجزائے ترکیبی کے علاوہ انسانی طبعیت و مزاج، عادات و خصائل اور اخلاق و اعمال پرمشتمل انسانی شعوریا نفس ہے۔ اسی لیے علم نفسیات بنیادی طور پر رویئے(behavior)اور عقلی زندگی کا سائنسی مطالعہ (scientific study) کہلاتاہے۔
جسم ، روح اور نفس کے باہمی تعلق کو موبائل کی مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ سیمسنگ ، آی فون، نوکیا، وای وہ وغیرہ ہارڈ وئیر کے جسمانی نام ہیں ۔ ان سب کے اندر ایک روح کارفرما ہوتی ہے جو ہمیں نظر نہیں آتی ۔اسے اینڈرائڈ یا میکنٹوش کہا جاتا ہے۔ یہ سسٹم سافٹ وئیرس ہیں ۔ ان کے بغیر کوئی موبائل کام نہیں کرسکتالیکن ان پر صارف کو اختیار نہیں ہوتا۔ ان کے علاوہ مختلف استعمالات کے سافٹ وئیر ہوتے ہیں جسے فون کا نفس کہہ سکتے ہیں ۔ان میں سے کچھ لازمی ہوتے ہیں جیسے گفتگواور ایس ایم ایس وغیرہ اور کچھ اضافی مثلاً واٹس ایپ ، ٹوئٹر ، گوگل ، یوٹیوب، قرآنی ایپ ، اردو لغت وغیرہ ۔ ان کا استعمال صارف کے شعور یعنی مزاج اور ضرورت پر منحصر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے اسمارٹ فون استعمال کرنے والے واٹس ایپ ایکٹی ویٹ نہیں کرتے۔کوئی فیس بک کارخ نہیں کرتا تو کوئی یوٹیوب میں نہیں جھانکتا ۔میں خود ٹویٹرجیسے مقبول ایپ سے دور ہوں۔
نفس انسانی کو ہموار کرنے کے بعد رب کائنات فرماتا ہے ’’ پھر اسے اس کی بدکاری اور پرہیزگاری کا الہام (القاء) کیا‘‘۔ گویا کہا جارہا ہے موبائل میں تمام سافٹ وئیرس انسٹال کرنے کے بعد اینٹی وائرس بھی نصب کردیا گیا جوہر وائرس کے حملے سےروک کر صارف کو خبردار کرتاہے نیز اجازت کے بغیر داخل نہیں ہونے کی دیتا ۔ اس لیے کہ وائرس ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر دونوں کے لیے تباہ کن ہوسکتا ہے ۔خالق کائنات نےیہ شعور ہر انسان میں ودیعت کیا ہے۔ اسے ملامت کرنے والا نفس لوامہ کہا جاتا ہے جو برائی پر ٹوکتا ہے الاّ یہ کہ انسان اپنی فطرت سے مکمل بغاوت یا انحراف کرلےیعنی ضمیر کا گلا گھونٹ دے۔ ہر موبائل کے اندر اپ ڈیٹ کی صلاحیت بھی موجود ہوتی ہے۔ جب بھی کسی ایپ میں بہتری کی جاتی ہے تو ہماری اجازت سےوہ موبائل میں داخل ہوکر اس کو بہتر بنادیتی ہے۔ بھلائی و پرہیزگاری انسان کو من پسند ہے ۔ وہ اپنے آپ کو بہتر سے بہتر انسان بنانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔اس کا نفس عمارہ خیروفلاح کےآفاقی اقدار کا احترام کرتا ہے اور ان کے صادر ہونے پر خوشی محسوس کرتا ہے۔
نفس کے نشوونما اور تحفظ کے اس اہتمام کے بعد فرمایا ’’ بے شک وہ کامیاب ہوگیا جس نے نفس کو پاکیزہ بنالیا اور وہ نامراد ہوگیا جس نے اسے آلودہ کردیا ہے‘‘۔ یعنی اگر کوئی نادان بندۂ نفس اپنے محافظ اینٹی وائرس سافٹ وئیر کو بوجھ سمجھ کر ساقط کردے یا اس کی خبرداری پر توجہ دینے کے بجائے ہر وائرس کا خیر مقدم کرنے لگے تو اپنی تباہی و بربادی کے لیے خود ذمہ دار ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی آن لائن ہی نہ جائے تو نت نئے اپ ڈیٹ سے اپنے آپکو محروم کرلےگا ۔ یہ آن لائن جانا کتاب الٰہی کا مطالعہ اور آفاق و انفس پر غور و تدبر بھی ہوسکتا ہے۔ کسی سے اگر اپ ڈیٹ کی اجازت طلب کی جائے اور وہ کسی اندیشے کے سبب انکار کردے تو اس کےنفس کا ارتقاء رک جائیگا۔ نفس انسانی کے اس سجنے سنورنے اور پروان چڑھنے کو قرآن حکیم میں تزکیۂ نفس کہا گیا ہے۔ ماہ رمضان نفس کے تزکیہ کی موسم بہار ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنےنفس کی بابت موبائل سے بھی کم فکر مند ہیں یا قیام و صیام کے ذریعہ اس کو نشونما دے کراپنے آپ کو ابدی فلاح و کامرانی کا مستحق بناتے ہیں؟