ڈاکٹر سلیم خان
ارشادِ ربانی ہے : ’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیےگئے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے، تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘ ۔ اس آیت کریمہ میں ماہِ رمضان کے روزوں کی فرضیت اور ا س کی غرض و غایت یاروح تقویٰ بیان کی گئی ہے۔ اس کے بغیر روزہ ایک بے جان جسم ہے۔ حدیث میں آتا ہے ’ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور بدن کی زکوٰۃ روزہ ہے‘۔ اب اگر جسم ہی بے جان ہو اس کی زکوٰۃ کیونکر جاندار ہوسکتی ہے۔ قرآن حکیم میں تقویٰ کے کئی پہلو بیان ہوئے ہیں مثلاً سورہ آل عمران میں فرمایا ’’ ہاں جو اپنا عہد و پیمان پورا کرے اور تقویٰ اختیار کرے ، سو بیشک اﷲ متقیوں سے محبت فرماتا ہے‘‘۔ یعنی عہد کی پابندی کے ساتھ تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لیے خوشخبری ہے کہ ان کا شمار اللہ کی محبوب بندوں میں ہو گا۔ اس سے عظیم سعادت کا تصور ناممکن ہے کہ کسی مخلوق سے اس کا خالق و مالک محبت کرے ۔
روزے کی حالت میں بندہ بھوک اور پیاس کی صعوبت اللہ کی ناراضگی سے بچنے کے لیے برداشت کرتا ہے ۔ عام طور پر نقصان کا خوف ناراضگی سے دور رکھتا ہے لیکن اگر خوف نفرت میں بدل جائے توبغاوت پر آمادہ فردِ بشر بڑا سے بڑا خسارہ اٹھا کر ناراضگی مول لے لیتا ہے ۔ اس کے برعکس اپنے محبوب کی خوشنودی کے لیے مشکلات سے گزرنے والا حبیب صادق ناراضگی کا خیال تک دل میں نہیں لاتا ۔ رب کائنات اپنے بندوں سے سترّ ماوں زیادہ محبت کرتا ہے اور (نافرمانیوں اور کوتاہیوں کے باوجود) اس پر نعمتوں اور رحمتوں کا لازوال سلسلہ دراز رکھتا ہے ۔ توکیا اس کا لازمی تقاضہ یہ نہیں ہے کہ بندہ بھی اپنے بے نیاز پاک پروردگار سے محبت کرے ؟ انسان جب اس محبت کے عہد وپیمان کو پورا کرتا ہے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتا ہے تو اپنے آقا کی بیش بہا محبتوں کا مستحق ٹھہرتا ہے کیونکہ محبت ہی محبت کو جنم دیتی ہے اور اس میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے۔
انسان جس ہستی سے محبت کرتا ہے اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’بے شک اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور جو حسنِ سلوک کرتے ہیں‘‘۔ اس دنیا میں ذات باری تعالیٰ کو دیکھنا تو ممکن نہیں ہے لیکن بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ اس احساس کے لیے محبت کرنے والا دل درکار ہے ۔ اس کے بغیر ابن آدم اپنی ذات تک سے غافل سے ہوجاتا ہے۔ بسا اوقات وہ اپنے آپ سے نفرت کرنے لگتا ہے یہاں تک کہ خود کوہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سےمحبت کرنے والا مردِمومن رب کائنات کی معیت کے سبب حزن ویاس سے محفوظ و مامون رہتاہے ۔ وہ دنیا وہ آخرت میں زندگی سے لطف اندوز ہوتا ہے۔
اپنے مالک و پرودگار کی صحبت سے لطف اندوز ہونے کے لیے تقویٰ کے ساتھ حسن ِ سلوک کی شرط لگائی گئی ہے۔ یہ حسن سلوک بندگانِ خدا کے ساتھ ہے ۔ اللہ کے بندوں سے اگر کوئی حسن سلوک کرے، ان کی ضروریات زندگی کو پورا کرنے کا اہتمام کرے، ان کی عزت نفس کا احترام کرے ، ان کی دلآزاری سے بچے تو لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کوایسے بندے پر پیار آئے گا۔ اللہ تعالیٰ ان باغی و طاغی بندوں سے کیونکر خوش ہوگا جو اس کے بندوں سے نفرت کرتے ہیں ۔ ان کی ایذارسانی کرتے ہیں ۔ ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اور ان پر ظلم و ستم کے کوڑے برساتے ہیں جبکہ ارشاد ربانی ہے ’’ میری رحمت ہر چیز پر چھائی ہوئی ہے، اور اُسے میں اُن لوگوں کے حق میں لکھوں گا جو تقویٰ اختیار کریں گے، زکوٰۃ دیں گے اور میری آیات پر ایمان لائیں گے”۔ ماہِ رمضان میں ہر صائم کوخودسے سوال کرنا چاہیے کہ کیا روزوں کی بدولت حاصل ہونےوالا تقویٰ مجھے ان خوش بختی عطا کرے گا جس کا اس آیت میں ذکر ہے؟ کیا رحمت کے مذکورہ بادل اس کی چھت پر برسیں گے ؟ ؟کیا اس باران رحمت سے اس کے دل کی دنیا سیراب ہوگی؟؟؟ اگر ہاں تو یہ مقامِ شکر ہے اس لیے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’ احسان کا بدلہ احسان کے سوا کیا ہے؟‘‘