دین بچاو دیش بچاو کانفرنس کو سیاسی مفاد سے جوڑنا درست نہیں۔۔
جالے ۔7/مئی (پریس ریلیز )
گزشتہ 15 اپریل کو گاندھی میدان میں امارت شرعیہ کے زیر اہتمام منعقد ہونے والی تاریخی دین بچاو دیش بچاو کانفرنس نے پوری دنیا کو مسلمانوں کی اجتماعیت و قوت کا جو احساس دلایا اس کی یادیں بہت دنوں تک انسانی فکر وشعور کا پیچھا کرتی رہیں گی بلکہ جیسے جیسے ماہ وسال گزریں گے اس کی تاریخی حیثیت مسلم ہو جائے گی مگر اسی کے ساتھ اس عظیم الشان کانفرنس کے فورا بعد کانفرنس کی نظامت کرنے والے خالد انور کو جے ڈی یو کی جانب سے ایم ایل سی بنانے کو لے کر دانشوروں اور سیاسی مبصرین میں بحث وتبصرے کا دور شروع ہوا تھا اور جس طرح سیاسی ونیم سیاسی افراد نے ایم ایل سی امیدوار کے لئے خالد انور کے نام کو لے کر اپنی ناراضگی درج کرائی تھی اس میں نہ صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی شدت آتی جارہی ہے بلکہ سابق ایم ایل سی سلیم پرویز سمیت ریاستی سیاست سے جڑے متعدد افراد نے اس مسئلے میں جہاں خالد انور کی کارکردگی پر سوالیہ لکیر کھینچی ہے وہیں بہت سے لوگوں نے اسے پارٹی ارکان کے ساتھ دھوکہ قرار دیتے ہوئے سیدھے سیدھے وزیر اعلی نتیش کمار کی نیت پر طنز کسا ہے سلیم پرویز نے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں اگر چہ دین بچاو دیش بچاو کانفرنس کی کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے دعوی کیا ہے کہ اس کی یادیں کئی نسلوں تک میں زندہ رہیں گی مگر ساتھ ہی انہوں نے کانفرنس کی نظامت کرنے اور اس کانفرنس کو سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرنے کے معاملے پر ریاستی حکومت اور خاص کر نتیش کمار کو تنقید کا نشانہ بنا یا ہے انہوں نے کہا کہ کانفرنس کے فورا بعد نتیش کمار نے ایم ایل سی کے لئے ایک ایسے آدمی کا انتخاب کیا ہے جس کا نہ تو سیاست سے کوئی گہرا رشتہ ہے اور نہ ہی انہیں اس میدان کا تجربہ بلکہ سیدھی بات تو یہ ہے کہ خالد انور کے نام کو مضبوط سرمایہ دار ہونے کی وجہ سے سامنے لایا گیا جو کہ سیاسی نقطہ نظر سے کافی افسوسناک ہے انہوں نے کہا کہ نتیش کمار کا یہ قدم ان کی کمزور سیاسی پالیسی کا نتیجہ ہے جس کی آنے والے وقت میں پارٹی کو بھاری قیمت چکانی ہوگی انہوں نے کہا کہ 15 اپریل کو گاندھی میدان میں ہونے والی دین بچاو دیش بچاو کانفرنس تاریخی تھی اور شاید یہ پہلا موقع تھا جب مسلمانوں نے ذات مذہب کی تفریق سے بالکل اوپر اٹھ کر خالص ایمانی فکر سے گاندھی میدان میں اپنی حاضری درج کرائی تھی اور انگریزی میڈیا نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی تاریخی حیثیت کا اعتراف کیا تھی مگر ان سب کے باوجود میں تو یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ آخر انہیں کس وجہ سے کانفرنس کی نظامت سونپی گئی تھی اور آخر انہیں نتیش کمار نے کن خوبیوں کی وجہ سے ایم ایل سی بنانے کا فیصلہ کیا جبکہ پارٹی کے پرانے ارکان میں ایسے بہت لے لوگ تھے جنہیں اس عہدے کے لئے نامزد کیا جا سکتا تھا سلیم پرویز نے کہا مجھے نہیں لگتا کہ اس کانفرنس کے انعقاد کا پس پردہ کوئی سیاسی مقصد بھی تھا جیسا کہ بہت سے لوگوں اس طرح کا تاثر دینے یا پھیلانے کی کوشش کی ہے لیکن اس کے باوجود سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ایک ایسے آدمی کو کانفرنس کا روح رواں بنادیا گیا جو اسے اپنے سیاسی مفاد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا کیا اس کی اطلاع حضرت امیر شریعت کو نہیں تھی اور اگر انہیں احساس تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے تو پھر یہ قدم کیوں اٹھایا گیا سلیم پرویز نے کہا کہ میں خالد انور کی ذاتی حیثیت پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا مگر اتنا تو ضرور ہے کہ اس کا نتیش کمار کو کوئی ایسا سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوگا جس کا انہوں نے خواب سجایا ہوا ہے۔