۔۔۔۔کیرانہ ضمنی الیکشن پر کانگریس کا بھاجپاپر حملہ ۔۔۔۔ جرائم میں اضافہ بر سر اقتدار جماعتکی ناکامی کی علامت ! عمران مسعود
سہارنپور (احمد رضا) کیرانہ لوک سبھا چناؤکیلئے پرچہ داخل کرنیکا عمل شروع ہونے جارہاہے اس سیٹ پر کانگریس ، بہوجن سماج پارٹی اور سماج وادی پارٹی ہی گزشتہ چالیس سالوں سے جن سنگھ اور بھاجپائی امیدواروں کو مات دیتی آئی ہے جب جب یہاں کا سیکولر، دلت اور مسلم ووٹ چھہ فیصد بھی تقسیم ہوا ہے تب تب یہاں اس اہم سیٹ پر بھگوا امید وار ہی کامیاب رہے اگر ووٹرس دانش مندی کا سہی ثبوت پیش کریں تو اس پار بھی یہاں بھاجپائی امیدوار کو کم از کم پچاس ہزار سے زائد ووٹ کے تناسب سے ہرایا جانا کافی سہل ہے مگر ابھی تک تو یہاں اتحاد کی کوئی جھلک نظر نہی آرہی ہے اسی لئے بھاجپائی سینہ تانے گھوم رہے ہیں! کیرانہ سیٹ سے متعلق بھاجپائی دعوے داری کو مسترد کرتے ہوئے کانگریس نے صاف اشارہ دیا کہ جھوٹے نعروں اور وعدوں سے بھاجپاکیلئے اب الیکشن جیتنا ممکن نہی ہوگا عوام متحد رہکر بھاجپاکیخلاف پولنگ کو مجبور کئے گئے ہیں ان دنوں ہر جانب مہنگائی اور بیروزگاری کی مار سے ہر تیسرا گھر مشکلات سے دوچار ہے سرکار عوام کیلئے کطھ بھی اچھا کر نیکو کسی بھی طرح راضی نہی ہے! ایک اندازہ کے مطابق یوں تو مسلم اور دلت فرقہ پر ظلم وستم کی سچائی پر مبنی بہت سی وارداتیں عام ہیں مگر گزشتہ عرصہ ضلع بجنور کے نورپور علاقہ کے پیپلی گاؤں میں ۱۹۸۲ سے قائم مسجد میں بھراؤ کیلئے لائی جارہی مٹی سے لدی دو بوگیوں کو مقامی پولیس نے بلا وجہ روک لیا مسئلہ مسجد کے بھراؤ کا تھا تو تبھی کچھ لوگ پولیس سے مٹی سے لدی دونوں بوگی چھوڑنیکی گزارش کرنے پولیس اسٹیشن پہنچے درجنوں مسلم افراد کو دیکھ کر تھانہ نور پور کے انسپکٹر ابھی نیندر سنگھ اور دیگر سپاہیوں نے مسجد کے متولی اور علاقہ کے مسلم افراد کے ساتھ جو سلوک کیا اسکی جس قدر بھی مذمت کیجائے وہ کم ہے دراصل یہ واقعہ پولیس اور سرکاری مشینری کی متصب سوچ کا برا نتیجہ ہے واقعہ بیان کرنا ٹھیک نہی مگر یہ ضرور ہے کہ معمولی سی بات کو طول دیکر نور پور تھانہ کے عملہ نے بے قصور چھہ مسلم افراد پر سنگین مقدمات درج کئے اور سیکڑوں گاؤں والوں کو بلوے میں شامل کردکھایا بیقصور مسلم مہینوں جیل میں رہے آج بھی کچھ لوگ پولیس کے عتاب کا شکار ہیں مگر مظلوم آج بھی انصاف کیلئے بھٹک رہے ہیں مسلم فرقہ پر ظلم ڈھانیوالے انسپکٹر اور سپاہی آج بھی عیش وعشرت میں مست ہیں بے قصور مسلمانوں کے جیل چلے جانیکے بعد عوام کے بھاری دباؤ کے بعد پولیس کپتان نے انسپکٹر ابھی نیندر سنگھ اور دو پولیس والوں کو لائن حاضر کرتے ہوئے کاروائی کا وعدہ کیا مگر کچھ دن بعد انسپکٹر اور سپاہی بحال کردئے گئے مگر کافی وقت بیت جانیپر بھی ابھی تک بیقصور مسلمانوں کے خلاف درج ہوئی فرضی ایف آئی آر رد نہی کیگئی ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو فرضی مقدماتسے باہرکیاگیا اس معاملہ سے علاقہ میں سرکاری مشینری کی خوب مذمت کیجارہی ہے سچ جانتے ہوئے بھی سرکار مسلمانوں کو انصاف دینے میں مکمل طور سے ناکام ہوچکی ہے! اسی طرح گزشتہ سال ماہ مئی میں دلت اور اعلیٰ ذات کے تنازعہ میں جس قدر ستم دلت فرقہ پر ڈھائے گئے وہ بھی سبھی کے سامنے ہے دلت ٹھاکر تصادم میں سرکار کی شہ پر پولیس نے، بھیم آرمی کے سربراہ کو ماسٹر مائنڈ بناکر پیش کیا ہے نتیجہ کے طور پر ہائی کورٹ نے کل پھر اسکی ضمانت اور این ایس اے ہٹائے جانیکی درخواست دوسری مرتبہ بھی خارج کردی ہے اب لگاتار پھر چندر شیکھر عرف راون کو تین ماہ تک جیل ہی میں قید رہناہوگا یہ پولیس کی زیادتی کی زندہ مثال ہے کہ دلت قائد کو سبق سکھانیکے لئے اس قدر سنگین دفعات راون پر نافذ کر دی گئی ہیں کہ ضمانت پر باہر آنابھی مشکل ہوتا جارہاہے یہ پولیس کی ہٹلر شاہی ہی توہے کہ گناہ کم اور سزا بہت زیادہ؟
کانگریس کے سینئر قائد عمران مسعود نے کیرانہ چناؤ پر بولتے ہوئے کہاکہ بھاجپائی دلت اور مسلم فرقہ کے ساتھ امیتیاز برت رہی ہے ریاستی سرکار ہر مورچہ پر فلاپ ہوچکی ہے اندنوں ویسٹ یوپی کے درجن بھر علاقوں میں چندپولیس افسران اور دبنگ سیاست دانوں کی ملی بھگت کے چرچہ عام ہے اناؤ ممبر اسمبلی کا شرمناک واقعہ سبھی کے سامنے ہے اور سرکاری مشینری کایہ عمل قابل ا ور ا عتماد پولیس افسران کو پر بھی یشانی میں ڈالنے والاہے یعنی کے کرے کوئی اور بھگتے کوئی ہمارے زون کے تیز ترارڈی آئی جی شرد سچان اور ایس ایس پی ببلو کمار تن تنہا اکثربدمعاشوں، مافیاؤں اور چند مفادپرست سیاست دانوں سے وابسطہ پولیس ملازمین کے ایک بڑے نیٹورک کو ختم کرپانیکی پوزیشن میں نہی ہیں کیونکہ پچھلی سرکاروں کی طرح ہی اس سرکار میں بھی کچھ وزراء کے معاون اس نیٹ ورک کی پشت پناہی کرتے نظر آرہے ہیں بیباک طریقہ سے بدمعاشوں کی مدد کیجارہی ہے گزشتہ دس ماہ کے دوران ہماری کمشنری میں جس قدر نسلی اور مذہبی جھڑپیں رونماہوئی ہیں ان سبھی کی پشت پر سیاسی آقاؤں کی حکمت عملی کار فرمارہی ہے اس سچائی کو خد ہمارے وزیر اعلیٰ بھی نہی جھٹلا سکے ہیں اور آج بھی یہی نظریہ یہاں کارفرماہے جس وجہ سے امن پسبد شہری اور مظلوم عوام خوف کے سائے میں سانس لینے کو مجبور ہے! قابل ڈی آئی جی، فرض شناس ایس ایس پی ببلوکمار اور زونل آئی جی اس سچائی سے خوب واقف ہیں اسی لئے چاہ کربھی پولیس سخت جدوجہد کے بعد بھی غیر سماجی عناصر کا صفایا کرنے میں ابھی تک ناکام بنی ہوئی ہے! بڑھتے کرائم کے اس اہم اور قابل تشویش ایشو پر آج اخبارنویسوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابقممبر اسمبلی اور کانگریس کے ریاستی نائب صدر عمران مسعود نے صاف کہا ہے کہ ہماری کانگریس، سماجوادی اور بہوجن سماج پارٹی کی سرکار وں کو بدنام کرنیوالی بھاجپا سرکار جان بوجھ کر جرائم کو چھپارہی ہے کانگریس کے سینئر قائد عمران مسعود نے بیخوف بتایاکہ آج کمشنری میں جرائم اور جرائم پیشہ افراد کی باڑھ سی آگئی ہے سرکار جرائم کو قابو کرنے میں ناکام بنی ہوئی ہے ایمانداری سے پولیس افسران کو کام ہی نہی کرنے دیاجارہاہے پولیس کو سختی کرنے اور محکمہ میں موجود بد عنوان اسٹاف کوبھی نہی ہٹایاجارہاہے دیہات حلقہ کے ممبر اسمبلی مسعود اختر نے کہا ہے کہ مغربی اضلاع سہارنپور ، میرٹھ ، شاملی اور مظفر نگر اور بجنورکے درجن بھر علاقوں میںآٹھ ہفتوں کے دوران قریب قریب تین درجن سے زائد ڈکیتی، آپسی مارپیٹ، قتل، نسلی تشدد،فرقہ وارانہ جھڑپ اور لوٹ پاٹ اور چھوٹی بڑی چوریوں کی سنسنی خیز وارداتیں انجام دیگئی ہیں مگر چاہتے ہوئے بھی ابھی تک پولیس ان واردات میں شامل اصل ملزمان، مافیاؤں، دنگائیوں اور لٹیروں کو گرفتارتک نہی کرسکی ہے جس وجہ ریاست کی قانونیدیواریں چرمرانے لگی ہیں اور سرکار تماشائی بنی ہے! عام چرچہ ہیکہ ریاستی سرکار میں اندنوں ایماندار پولیس افسران سیاسی دخل کے رہتے کرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینے میں مجبور لگ رہے ہیں ریاستکی برسر اقتدار جماعت بھاجپا کے سیاسی آقا آجکل سینئر پولیس افسران کو دباؤ میں لیکر ابھی تک پانچ درجن سے زائدمن پسند انکاؤنٹر کرواچکے ہیں لیکن چرچہ ہوجانیکے بعد اب اچانک یہاں انکاؤنٹر بند کرادئے گئے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ریاست میں انکاؤنٹر کے بعد بھی جرائم کا گراف لگاتار بڑھنے پر ہی جرائم تھم نیکا نام نہی لے رہے ہیں! نگر نگم کے کونسلر منصور بدر کا کہناہیکہ جرائم کے پیچھے سیاسی دخل کارفرماہے اور جرائم پیشہ افراد کی موجودہ سرکار پردہ پوشی کر رہی ہے اناؤ، بلند شہر، میرٹھ، بجنور، نور پور، مراد آباد، سہارنپور، شاملی، کھتولی اور مظفر نگر کے ریپ، قتل، لوٹپاٹ اور قاتلانہ حملوں کے درجن بھر سے زائد دکھ دینیوالے واقعات آپ سبھی کے سامنے ہیں مگر ہمارے ہوم منسٹر اور ڈی جی پی سرکاری زبان بول رہے ہی ! نگر نگم کے کونسلر منصور بدر کا کہناہے کہ ویسٹ اتر پردیش کے چند اضلاع میں پچھلے سات ماہ کے دوران ڈاکہ ، لوٹ اور قتل کی وارداتیں رونما ہونے سے علاقہ کے عوام میں کافی غصہ اور دہشت پھیلی ہوئی ہے پچھلے تیس دنوں کی اغوا، ریپ ،ڈکیتی، لوٹ اور قاتلانہ حملہ کی وارداتوں نے تو عوام کے خوف میں مزید اضافہ کر دیاہے اس طرح کے سخت حالات دیکھنے کے باوجود بھی سیاسی عہدے داران اپنی مفادپرستی کت باعث تماشائی بنے ہیں دوسری جانب پولیس کو مکمل کام کرنیکی آزادی نہی ملنے کے نتیجہ میں جرائم پر جرائم ہوتے جارہے ہیں پولیس مجر مانہ ذہنیت رکھنے والے افراد پر ہاتھ ڈالنے سے بچنا ہی بہتر سمجھتی ہے! سیاسی دخل کی وجہ سے صوبہ کا اعلیٰ پولیس نیٹ ورک آجکل ذہنی طور پر بھاری دباؤ میں ہے سرکار تو بدلی ہے مگر افسران کو سہی کام سے روکا جارہاہے اسی لئے کرائم کا گراف لگاتار بڑھتاجارہاہے !