مکرمی!کیمپس،یونیورسٹیاں،تعلیمی ادارے عمدہ اخلاق اور انسانیت کی تعمیر کی بقا کا کام کرتے ہیں۔ ہمارے ملک کے آئین کے مطابق تعلیمی ادارے وہ چار دیواری ہوتی ہیں جو ملک کے تعمیری مستقبل کا فیصلہ کرتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ پچھلے چند سالوں سے کیمپس گھناؤنی سازشوں کا،قتل و غارت گری،غندہ گردی،توڑ پھوڑ اور تشدد کا پیش خیمہ بن چکا ہے۔ خواہ روہیت ویمولا کا institutionalised murder ہو ، نجیب احمد کا 2 سالوں بہیمانہ اغواہ،یا پھر دیگر یونیورسٹیوں میں ہونے والے طلبہ کو مستقل زد و کوب کے واقعات۔ یہ تمام معاملات مسلسل کیمپس کی اس تعمیری definition کا خاتمہ کرنے کے فراق میں ہیں۔
گزشتہ دن علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جو کہ ملک کی معیاری و اعلیٰ یونیورسٹیوں میں ناک کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں RSS کے غنڈوں نے کیمپس میں داخل ہو کر نہ صرف AMU مخالف نعرے لگائے بلکہ توڑ پھوڑ اور ظالمانہ مارا ماری بھی کی۔ حد تو یہ ہے کہ کیمپس انتظامیہ پولیس کے پاس FIR لکھوانے گیا تو انہوں نے FIR لکھنے سے بھی انکار کردیا۔ افسوس صد افسوس کہ پر امن طریقے سے احتجاج کر رہے اے ایم یو کے طلبہ کی مدد کے بجائے محکمہء4 پولیس ان طلبہ ہی پر لاٹھی چارج کرنے لگا۔ ایس آئی او ملک گیر سطح پر کام کرنے والی سب سے بڑی طلبہ تنظیم ہے جو کیمپس میں ہوئے اس واقعے کی سخت مخالفت کرتی ہے۔اس طرح تعلیمی و اخلاقی اداروں میں غنڈوں اور لفنگوں کی شرکت پر روک لگائی جانی چاہیے۔ ایس آئی او ممبئی کے صدر عبید الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس قسم کے خطرناک شر پسند اور تعلیمی اداروں میں روڑا ڈالنے والے عناصر کا خاتمہ وقت کی اوّلین ضرورت ہے۔ اِن غنڈوں کو فوری طور پر گرفتار کیا جائے اور ان کے ذریعے کیے گئے سنگین جرم کی بدولت کڑی کارروائی اور سزا کا معاملہ اختیار کیا جائے۔ ہم حکومتِ ہند سے مطالبہ کرتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ہو رہی مسلسل غنڈہ گردی کی روک تھام کے لئے ہنگامی تدابیر اور اس کا نفاذ عمل میں لایا جائے۔
صدر SIO ایس آئی او ممبئی نے مزید کہا کہ آج کیمپس کی ایسی صورتِ حال ہوچکی ہے کہ ذہین اور اعلیٰ نمبروں سے کامیاب ہونے والے طلبہ بھی اپنے امتیازی تعلیم کی حصولی کے لیے کیمپس میں ہو رہی دہشت گر دانہ واقعات کے سبب خوف کی نفسیات سے جھوجھ رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت اس واقعے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر کیمپس کی اخلاقی و تعمیری فضا کو بحال کرنے کے لیے فوری اور سخت قوانین مرتب کرے۔