سمیع اللّٰہ خان
جنرل سیکریٹری: کاروانِ امن و انصاف
ksamikhann@gmail.com
ابھی ہم آصفہ کی چیخوں کو بھلا نہیں پائے تھے کہ آج ایک اور دلدوز چیخ نے ہمیں سکتے میں ڈال دیاہے،
اترپردیش کے شہر اناؤ سے سات کلومیٹر دور ہردوئی روڈ پر واقع،قصبہ ۔ اکبر پور دبولی، ماکھی تھانہ، کی رہنے والی | فرضی نام: افسانہ، ۱۵ سالہ۔ | بوقت دوپہر، بتاریخ، 27 اپریل، سامان خریدنے کے لیے چوراہے کی دوکان پر گئی تھی، اسی وقت دو درندہ صفت بھیڑیے، آنند دویدی، اور تلک سنگھ اس بچی کو پکڑ کر قریب کے سنسان پلاٹ پر لے گئے اور تلک سنگھ کی مدد سے آنند دویدی نے بچی کی عصمت تار تار کردی ۔
اب تازہ ترین صورتحال یہ ہیکہ:
غریب خاندان انصاف کے لیے مارا مارا پھر رہاہے، ہم نے جب متاثرہ کے خاندان سے رابطہ کرنا چاہا تو، وہ ہاتھ جوڑنے لگے کہ، رہنے دیجیے بھائی کسی کو ہمارا ساتھ دینا ہی نہیں ہے تو کیا فائدہ؟!
وہ گڑگڑانے لگے کہ، صبح سے عجیب عجیب فون کرکے لوگ الٹی سیدھی باتیں کررہے ہیں!
ہم نے کہا کہ، آپ کم از کم معاملہ اور کرنٹ صورتحال بتلائیں ہم کم از کم انصاف پسندوں کو متوجہ ہی کرادینگے، تو، وہ بے حد گھبرائے ہوئے نظر آئے کہنے لگے ہم آپ پر اعتماد کیوں؟ اور کیسے کریں؟
اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ، ستم رسیدہ خاندان پوری طرح زبردست دباؤ میں ہے، اور انہیں ٹرولنگ پر رکھا گیا ہے، تاکہ یہ معاملہ دب جائے اور درندہ اگلے شکار کے لیے تیار ہوجائے ۔
سمجھ میں نہیں آتا کہ اس ملک کا مستقبل کس قدر حیوانیت زدہ ہونے جارہاہے،
ایک غریب مزدور خاندان، جس کے پاس، اس کی کل جمع پونجی اس کی عزت ہوتی ہے، معاشرے میں پروان چڑھتے بھیڑیے اب ان غریبوں کی بچیوں پر جھپٹ رہےہیں، عزت لٹ جاتی ہے، کمزور و بے سہارا غیور ماں باپ کے دل پر آخر کیا بیت رہی ہوگی؟ اس پر مستزاد ظلم سہنے کے لیے ہی دباؤ بنانا!
ستم بالائے ستم کی یہ بدتر صورتحال، مظلوموں کی آہیں اور ستم زدوں کی فریادیں، کیا اس سماج پر اثرانداز نہیں ہوتی؟
یا پھر بے حسی کی مہریں ہم اپنے قلوب پر ثابت کرواچکے ہیں؟
اس دکھیاری ماں کے آنسو کیا ہماری غیرت پر طمانچہ نہیں مارتے؟
اب جبکہ، مظلوم گھرانہ، انصاف کے نام سے بدکنے لگا ہے، ہمارا، ہماری قیادتوں کا طرزعمل کیا ہوگا؟
سیکولرزم یا غیرت مندانہ؟
شری نریندر مودی جی، آپ نے شاید ابھی ایک قانون پاس کیا ہے، نابالغ پر زیادتی کرنے والوں کو پھانسی دی جائے گی؟
دیکھیے یہ مظلوم بچی، نابالغ ہے، کیا اس کی چیخیں آپ کے کانوں میں پڑ رہی ہیں؟ یا دل کے پردوں کے ساتھ کان کے پردے بھی بے حسی کے مارے پھٹ چکے ہیں؟
اس فیصلے کا استقبال کرنے والے ہمارے بڑے ذمہ داران سے اپیل کرتےہیں کہ، اپنی ماتحتی کے ان کمزور مسلمانوں کی داد رسی کے لیے پہنچیں، ان کے ساتھ یکجہتی مقدم و مطلوب ہے ۔
اگر اس بچی کے ساتھ انصاف نہیں ہوا، اور اس گھرانے کو مظلومیت کے ساتھ ہراسانی کے اس عالم سے باہر نہیں نکالا گیا تو، یکجہتی، انصاف پسندی، سیکولرزم اور ملت و انسانیت کی یک رخی دوغلی پالیسیاں، بہت جلد بیڑاغرق کردینگی ۔