منموہن سنگھ کو چوڑیاں بھیجنے والی اسمرتی ایرانی اب کہاں ہیں بچیوں کی عصمت سے کھیلنے والوں کو معاف نہ کیا جائے: اشرف حسینی
سہارنپور(احمد رضا) اس بات میں کچھ بھی جھول نہی کہ آج ملک بلخصوص زیادہ تر ریاستوں میں جبریہ عصمت دری، لوٹ پاٹ، ڈکیتی، قتل اور عدم رواداری کی وارداتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا جا رہاہے مرکزی بھاجپا سرکار اور ریاست کی بھاجپائی سرکاریں نظم ونسق اور جرائم پیشہ افراد پر کنٹرول کر پانے میں بری ظرح سے ناکلام بنی ہیں انناؤ، آگرہ، بلند شہر، میرٹھ اور کھٹوعہ عصمت دری معاملات اسکے پختہ ثبوت ہیں نتیجہ کے طور پر آج ملک کا عوام اپنے اہل خانہ کے ساتھ خوف کے سائے می۹ں زندگی گزارنیکو مجبور ہے!ملک کے اندر عصمت دری کے معاملے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں، اور طرح طرح کے بیانات بھی آ رہے ہیں، کہیں عصمت لوٹنے والے غنڈوں کی حمایت میں ٹیمیں بنائی جارہی ہیں تو کہیں ہندو وکیل ان معصوم لڑکیوں کے لئے انصاف کی لڑائی کے لئے اپنی جان و مال سے ساتھ ہیں اور لڑائی لڑ رہے ہیں جموں کے کٹھوعہ میں گجرات کے سورت ساسارام وغیرہ میں معصوم معصوم بچیوں کی عصمت لوٹی جارہی ہے اور ادھر صاحب اقتدارسیاسی لیڈران اپنی روٹیاں سیکنے میں لگے ہوئے ہیں یہ ایک دردناک لمحہ ہے جسکی مذمت ضروری ہے ،ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مسلم رہبر اشرف حسینی نے کہاہیکہ اخبارات کے حوالہ سے میں سیاست دانوں سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں اس ملک کی وزیر اطلاعات و نشریات اسمرتی ایرانی سے جو اپوزیشن میں رہ کر جب اتنا چلاتی تھیں کہ مجرموں کو پھانسی کی سزا ہونی چاہئے اور سرکار کیا کر رہی ہے، اور منموہن سنگھ کو چوڑیاں بھیجنے والی اب کیا مودی کو چوڑیاں نہیں بھیجیں گی! مسلم رہبر اشرف حسینی نے کہاہیکہ عورت تو عورت ہی ہوتی ہے وہ چاہے بچی ہو، جوانی کی شکل میں ہو یا بوڑھی ہو خواتین کی عصمت کی لاج اور وقار قائم رکھنا ہم سبکی ذمہ داری ہے اس کے ساتھ اگر غلط کام کیا جا رہا ہے، وہ چاہے جوان لڑکا کرے یا بوڑھا اس کے لئے تو سزا ہونی ہی چاہئے اور وہ سزا ہے پھانسی کی سزا میں اس میں کسی ذات پات کی بات نہیں کر رہا ہوں اور اب تو برٹش ترجمان نے بھی اقرار کر لیا ہے کہ ہندوستان اب ’’بلاتکار‘‘ کی راجدھانی بن چکا ہے صاحب کے گھر کی عزت کو لوٹا جارہا ہے وہیں صاحب کو دوروں سے فرصت نہیں ہے، کیا کسی کے گھر کی بیٹی کی عزت پر اگر حملہ ہوتا ہے تو کیا باپ کو ملک سے باہر جانا چاہئے یا نہیں ہرگز نہیں۔ بغیر نام لئے میں یہ کہوں گا کہ ادھر ایک صاحب ہیں جو ڈٹی وی شو کے ڈبیٹ میں جاتے ہیں اور بھوں بھوں کرکے آجاتے ہیں، اور کوئی کام ہی نہیں ہے اب تو ڈبیٹ والے صاحب کو بھی ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی ہندوستان کے چار اہم پہئے نظر آ رہے ہیں، شاید کچھ آنکھیں کھلی ہیں!