نئی دہلی ۔24اپریل
عدلیہ ہندوستان کا سب سے باوقار ڈھانچہ ہے ،اس پر تمام شہریوں کا مکمل اعتماد ہے اور یہیں سے سبھی کو انصاف کی امید وابستہ ہوتی ہے ،سپریم کورٹ اور اس کے چیف جسٹس سے سے زیادہ اہم ہوتے ہیں کیوں کہ ان کی سربراہی میں پور ا عدالتی نظام چلتا ہے ،ایسی شخصیت پر اگر کسی طرح کا الزام لگتاہے ،عوام میں یہ تاثر پایاجاتاہے کہ وہ حکومت کے اشارے پر کام کررہے ہیں ،انصاف کے تقاضوں کو پور ا نہیں کررہے ہیں ،اپنے فریضہ کی ادائیگی میں جانب داری سے کام لے رہے ہیں تو پھر یہ جمہوریت کیلئے انتہائی شرمناک اور قابل غور ہے ۔یہ بات ہوا میں نہیں کہی جارہی ہے بلکہ خود سپریم کورٹ کے چار ججز نے ایک پر یس کانفرنس کرکے ان حقائق کا سر عام اظہار کر چکے ہیں ۔ایسے میں چیف جسٹس آف انڈیا کے خلاف کانگریس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے مواخذہ کی تحریک ایک بہترکوشش تھی لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ راجیہ سبھا کے چیرمین اور نائب صدر جمہوریہ جنا ب وینکیا نائیڈو نے اس کا جائزہ لینے اور اس پر کاروائی کرنے کے بجائے سرے سے اسے مسترد ہی کردیا۔ ان خیالات کا اظہار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد منظور عالم نے کیا ۔
انہوں نے مزید کہاکہ جناب وینکیا نائیڈو کا یہ فیصلہ کوئی غیر متوقع نہیں ہے ،بی جے پی نے تما م آئینی اداروں اور اہم عہدوں پر جس طرح ایک خاص نظریہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو فائز کیاہے اس صورت میں اس کے علاوہ کسی اور فیصلہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی ہے ۔انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہاکہ سابق چیف الیکشن کمشنر اچھل کمار جیوتی اس سلسلے میں اہم نظیر ہیں جنہوں نے حکومت کی خوشنوی کے پیش نظرجانے سے قبل عام آدمی کے بیس ارکان کی رکنیت منسوخ کردی ،اس طرح ایک پارٹی کو فائدہ پہونچانے کیلئے گجرات الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے میں تاخیر کی جبکہ ہماچل پردیش کے ساتھ ہی ہونا تھا ۔
ڈاکٹر محمد عالم نے کہاکہ عدلیہ پر عوا م کا اعتماد برقرار رکھنے کیلئے مواخذہ کی تحریک ایک بہتر صور ت تھی جسے راجیہ سبھا کے چیرمین کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے تھا جبکہ انہوں نے سرے مستر کردیا جو آئینی طور پر بھی صحیح نہیں ہے کیو ں کہ نائب صدر جمہوریہ کو صرف یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ مواخذہ سے متعلق 50 سے زائد ممبران پارلیمنٹ کے دستخط ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد تین ججوں کی کمیٹی اس پر فیصلہ کرتی۔ لیکن 64 ممبران پارلیمنٹ کا دستخط ہونے کے بعد بھی اس کو خارج کیا جانا حیرت انگیز ہے۔
\