اس کے دشمن ہیں بہت، آدمی اچھا ہوگا

ڈاکٹر سلیم خان
محلہ شانتی نکیتن میں ۷۰ فیصد ہندو اور ۳۰مسلمان رہتے تھے ۔ پہلی بار بھیانک فساد پھوٹا تو مسلمانوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا۔ احمد کے بیٹے حامد نے بھی بوریہ بستر باندھ لیا لیکن بیوی نے صاف انکار کردیا ۔ اس کہنا تھا میں یہیں کی مٹی سے بنی ہوں اور یہیں کی مٹی میں ملوں گی۔ بادلِ ناخواستہ احمد نے بھی سفر کا ارادہ ترک کردیا لیکن حامد کے ننھے بیٹے محمود نے والد کے ساتھ جانےکے بجائےدادی کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی۔ اسکول کے ہیڈ ماسٹر پنڈت جی ایک مرتبہ احمد کے گھر کے سامنے سے گذر ے تو وہ انہیں اپنے گھر لے آیا ۔ پنڈت جی نے اپنے شاگردحامد کی خیریت دریافت کی تو احمد نے بتایا کہ وہ تومحلہ چھوڑ چکا ہے لیکن اس کی نشانی محمود ہمارے پاس ہے۔ پنڈت جی احمد اور محمود سے بہت خوش ہوئے ۔ انہوں نےپوچھا محمود کو اسکول میں کیوں نہیں داخل کیا ۔ احمد نے بتایا یہ دیکھنے میں بڑا لگتا ہے لیکن عمر کم ہے۔پنڈت جی کے اصرار پر محمود اسکول آنے جانے لگا ۔
اس انسانیت نوازی نے عام لوگوں کے اندر پنڈت جی کی نیک نامی میں بہت اضافہ کیا مگر سنسکرت کے استاد گرو جی بہت ناراض ہوئے۔ پنڈت جی نے پوچھا اس بے ضرر بچے سے تمہیں کیا تکلیف ہے؟ گروجی نے بتایا دیکھو یہ ٹوپی پہن کرا سکول آتا ہے۔ پنڈت جی نے پوچھا لیکن دوسرے بچے بھی توچوٹی کے ساتھ اسکول آتے ہیں ۔ گروجی صاف گوئی سے بولے وہ تو ہے لیکن کل کو اگر ہمارے بچے بھی ٹوپی لگانے لگ جائیں تو کیا ہوگا؟ پنڈت جی نے پوچھا لیکن ایسا کیوں ہوگا؟ اس لیے کہ ٹوپی پہن کر یہ خوبرو لگتا ہے اور چوٹی میں اپنے بچےمضحکہ خیز نظر آتے ہیں ۔ پنڈت جی نے کہا تب تو اچھا ہے ٹوپی پہن کر اپنے بچے بھی خوبصورت لگنے لگیں گے ۔ گروجی نے کہا لیکن ٹوپی پہننے کے بعد وہ ہماری نہیں سنیں گے بلکہ مولوی صاحب کی بات مانیں گے۔ اس لیے محمود کو اسکول سے بھگا دو۔ پنڈت جی نے گروجی کی دلیل مسترد کردی ۔ وقت کا پہیہ حسب معمول گھومتا رہا ۔
اسکول کے اندر سالانہ کھیل کود کے مقابلے ہورہے تھے ۔گروجی کو ڈر تھا کہ محمود دوڑ میں جیت جائے گا اور پنڈت جی بھی نہیں چاہتے تھے کہ محمود اول نمبر پرآئے اس لیے دوڑ کے درمیان انہوں نے چالاکی سے ڈنڈہ پھینکا جس سے الجھ کر محمود گر گیا ۔ پنڈت جی جان بوجھ کرانجان بن گئے اور اس کی جانب سے نظریں پھیرلیں ۔ موقع غنیمت جان کر گروجی اندھیرے میں دوڑے ہوئے آئے اور گھائل محمود کے زخموں پر نمک مل کرفرار ہو گئے۔ وہ رات بھر میدان میں پڑا کراہتا رہا ۔ صبح پنڈت جی نےسچر ماسٹر کو محمود کے پاس بھیجا ۔ ماسٹر سچر نے بڑی یکسوئی سے محمود کے زخموں کو دیکھا اور تصاویر کے ساتھ اس کی رپورٹ شائع کرکے ثابت کردیا کہ محمود اسکول کا کمزور ترین طالب علم ہے نیزدیگر سارے طلباء اس سے بہتر ہیں ۔
محمود کی حالتِ غیر پرکامریڈ جی کلرک کو رحم آ گیا ۔ اس نے اپنے سرخ پرچم سے محمود کے زخموں کو صاف کیا اور کہا تم خود اپنی اس درگت کے لیے ذمہ دار ہو ۔ زمین پر دیکھنے کے بجائے آسمان کی طرف دیکھ کر دوڑتے ہو۔ محمود بولا میں تو نہ زمین کی جانب دیکھتا ہوں اور نہ آسمان کی طرف۔ دوسرے بچوں کی طرح میں بھی سامنے دیکھ کر دوڑ رہا تھا ۔کامریڈ جی پچکار کر بولے تمہارے گرنے کی بنیادی وجہ تمہاری ٹوپی ہے ۔ یہ ٹوپی اگر تمہارے سر پر نہیں ہوتی تو تم کبھی نہ گرتے اس لیے ایسا کرو کہ میری طرح کھلے سر ہوجاو اور یہ سرخ پرچم تھام لو۔ محمود نے معصومیت سے پوچھا لیکن اس سے کیا ہوگا؟ کامریڈ نے کہا ایسا کرنے تمہارا مستقبل روشن اور تابناک ہوجائے گا۔ وہ دن ہے اور آج کادن محمود میدان میں پڑا کراہ رہا ہے۔ اس کے ساتھ عداوت بھی کی جاتی ہے اور ہمدردی بھی جتائی جاتی ہے لیکن گھاو پر مرہم نہیں رکھا جاتا ۔ وقت کا مرہم دھیمے دھیمے سب زخموں کوبھرتا جاتا ہے۔