دین بچاو دیش بچاو کانفرنس کی کامیابی ملی بیداری کا ثبوت کسی ذاتی معاملے کی بنیاد پر حقیقت سے چشم پوشی غلط ۔۔۔ارشد فیضی
جالے ۔18/اپرل (پریس ریلیز )
15 اپریل کو امارت شرعیہ کے زیر اہتمام گاندھی میدان میں منعقد ہونے والی عظیم الشان دین بچاو دیش بچاو کانفرنس کے بعد خالد انور کے ایم ایل سی بنائے جانے کو لے کر جاری غیر ضروری بحث پر کسی بھی طرح کے تبصرے سے انکار کرتے ہوئے پیام انسانیت ٹرسٹ کے صدر اور اسلامک مشن اسکول کے ڈائریکٹر مولانا محمد ارشد فیضی نے بس اتنا کہا ہے کہ جن لوگوں نے ایک معمولی سی بات کے بہانے اس تاریخی کانفرنس کی کامیابی کو سوالیہ نشان کے دائرے میں کھڑا کر دینے کی سازشیں کی ہے ان کو اب امیر شریعت حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی کے وضاحتی بیان سے سبق لے کر ہوش کے ناخن لینے چاہئے انہوں نے آج جاری اپنے بیان میں کہا کہ پٹنہ کی سرزمین پر جو کانفرنس منعقد ہوئی اور اس کانفرنس میں مسلم دلت اتحاد کا جو منظر دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کی تاریخی حیثیت سے انکار کی گنجائش نہیں مگر اس کے بعد جس طرح کے نامناسب تبصروں کا دور شروع ہوا تھا اور امیر شریعت کے خلاف جو زبانیں استعمال کی گئیں وہ نہ صرف کافی افسوسناک ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ سارے تبصرے کسی سازشی مہم کا حصہ ہیں اس لئے ہمیں ذاتی طور پر کسی سازش کا شکار ہونے کی بجائے اس کی گہرائی تک پہونچنے کی کوشش کرنی ہوگی انہوں نے کہا کہ میں کھلے دل کے ساتھ امیر شریعت کے اس حوصلے کو سلام کرتا ہوں جس کی وجہ سے آزاد ہندوستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گاندھی میدان اتنے بڑے مجمع کی موجودگی کا گواہ بنا ،مجھے امید ہے کہ جس حساس مسئلے کو لے امیر شریعت نے پوری قوم کو آواز دی تھی اس میں ان کی کوششیں مثبت نتائج کو جنم دے گی مولانا فیضی نے کہا کہ کسی بھی فرد کا سیاسی عہدے کو حاصل کر لینا اس کا ذاتی مسئلہ ہو سکتا ہے مگر اس کی وجہ سے پورے قوم کے جذبات یا امارت کے کردار پر سوال کھڑے نہیں کئے جا سکتے اگر ایسا ہوتا رہا اور ہم اپنے رہنما عمل کو کردار کو بے وجہ تنقید کا نشانہ بناتے رہے تو ہم اپنی اجتماعی قوت کو ثابت کرنے کا وہ سنہرا موقع کھو دیں گے جس کے لئے حضرت امیر شریعت اور مولانا سید ارشد مدنی سمیت ملک کے بڑے قائدین کوشش کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی تردد نہیں کہ امارت شرعیہ کے پلیٹ فارم سے مسلمانوں نے گاندھی میدان کے اندر امیر کی اطاعت میں اپنی اجتماعیت کا جو ثبوت پیش کیا ہے اس کی آہٹ سیاست کی گلیاریوں میں بہت دنوں تک سنی جاتی رہے گی مولانا فیضی نے کہا کہ سید محمد ولی رحمانی اس شخص کا نام ہے جس نے ہمیشہ حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوری قوت کے ساتھ اس لئے بات کی ہے کہ ان کو شہرت یا کسی عہدے کی لالچ نہیں رہی بلکہ انہوں نے خالص ایمانی فکر واحساس کے ساتھ جمہوری اصولوں کی روشنی میں مسلمانوں کی قیادت وراہنمائی کا فرض ہمیشہ پوری ذمہ داری اور جوابدہی سے نبھایا ہے انہوں نے کہا کہ جو لوگ ان کے کردار پر حملہ آور ہیں انہیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ عہدے جن کی جوتیوں میں پڑے ہوتے ہیں انہیں کسی ایک فرد کے لئے اتنی بڑی کانفرنس منعقد کرنے کی ضرورت نہیں تھی بس یہ اتفاقی واقعہ تھا اس لئے اسے اس کانفرنس سے جوڑ کر دیکھنا امارت کی کردار کشی کے مترادف ہوگا مولانا فیضی نے کہا کہ تنگ خیالی کے مرض میں مبتلا ہوکر اگر ہم کسی بھی طرح کے تبصرے کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے رہے تو قوم میں کسی بڑے انقلاب کے آنے کی امیدیں دم توڑ دیں گی اس لئے ہمارا فرض یہ ہے کہ ہم اپنے اندر خود اعتمادی کی صفت پیدا کر کے دل کی آنکھ سے سارے منظرنامے کو دیکھنے کی کوشش کریں تاکہ کسی خوشگوار نتیجے تک پہونچنا آسان ہو سکے انہوں نے کہا کہ پوری قوم اس وقت جس کشمکش کی شکار ہے اس میں ہماری مشترکہ ذمہ داری یہ ہے کہ ہم کسی سازش کا حصہ دار بننے کی بجائے مثبت طریقے سے عوام میں اعتماد پیدا کرنے کی جد وجہد کریں انہوں نے کہا کہ حضرت امیر شریعت اور امارت شرعیہ پر طرح طرح کی الزام تراشیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ آج ان لوگوں نے بھی ان کی عظمیت اور طاقت کو سمجھ لیا جو ان سے خار کھایا کرتے تھے اس لئے میرا پیغام یہ ہے کہ مسلمان آپسی اتحاد کے مظاہرے کو تقویت دے کر دنیا کو یہ۔ بتائیں کہ وہ کل بھی امارت شرعیہ اور اس کے امیر کی اطاعت کرتے تھے دین بچاو دیش بچاو کانفرنس میں بھی کیا اور کل بھی کریں گے کیونکہ آپ۔ کا یہی قدم سازشی ذہن رکھنے والوں کے لئے معقول جواب دے گا ۔