کل یگ کا درونا چاریہ (سلگتی امبیڈکر جینتی کی نذر)

ڈاکٹر سلیم خان
پرنام گرو دیو کی اونچی آواز پر دورنا چاریہ چونک پڑے۔ کل یگ میں پھرسے ایک لویہ سنسکار میڈیکل کالج کےپرنسپل درونا چاریہ کے سامنے کھڑا تھا
درونا چاریہ نے رکھائی سے پوچھا تم یہاں؟ کس نے تمہیں اندرآنے کی اجازت دے دی؟
آپ کے رجسٹرار بھیم سنگھ نے بھیجا ہے گرودیو ۔
اچھا! تو بولو کیا کام ہے؟
صاحب اس داخلے کے فارم پر دستخط فرما دیں ۔ ایک لویہ اپنی فائل بڑھاتے ہوئے اعتماد کے ساتھ بولا
مارک شیٹ کہاں ہے ؟
نیچے تو دیکھیں مارک شیٹ کے ساتھ ذات پات کا سرٹیفکیٹ بھی لگا ہوا ہے
مجھےتمہاری ذات کا علم ہے لیکن اتنے کم نمبروں کے ساتھ کسی تھرڈ کلاس کالج میں بھی داخلہ نہیں ہوسکتا کجا کہ پہلے نمبر کا سنسکارمیڈیکل کالج
صاحب سارے کالجس کی سیٹ کی پر ہوچکی ہیں اسی لیے یہاں آیا ہوں
ہمارے کالج میں تو سب سے پہلے داخلے بند ہوجاتے ہیں اور تم یہ مارک شیٹ لے کر ابھی آئے ہو ۔تم تو جانتے ہو میں کسی کی سفارش قبول نہیں کرتا
مجھے کسی سفارش کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کے بھیم سنگھ نے بتایا کہ او بی سی کوٹے کی ساری نشستیں خالی ہیں۔ میں اپنا حق لینے کے لیے آیا ہوں
لیکن کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارے کالج میں یہ نشستیں ہمیشہ خالی رہتی ہیں
جی ہاں اس لیے کہ او بی سی طلباء کی تعداد اتنی کم ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کالجوں میں کھپ جاتے ہیں یہاں کا کا رخ ہی نہیں کرتےمگر میں یہیں پڑھوں گا
اور اگر میں داخلہ دینے سے انکار کردوں تو؟ درونا چاریہ نے کرخت لہجے میں سوال کیا
ایک لویہ مسکرا کر بولا میں سیدھے عدالت جاوں گا اور آپ جیل جائیں گے
کیا تم مجھے دھمکی دے رہے ہو؟
جی نہیں سر میں آپ کے سوال کا جواب دے رہاہوں
بہت ہوشیار ہوگئے ہو ہاں ۔ یہ کہہ کر لرزتے ہاتھوں سے درونا چاریہ نے ایک لویہ کے فارم پر دستخط کردیئے اور دل ہی دل میں کہا میں دیکھتا ہوں
ایک لویہ کے ساتھ دیگر طلباء اور اساتذہ کا سلوک بہت برا تھا مگر اس کی ساری توجہ اپنی تعلیم کی جانب تھی ۔ ایک مرتبہ کالج میں چانکیہ کے عنوان پر مصوری کی نمائش تھی تو ایک لویہ ڈاکٹر امبیڈکر کا مجسمہ لے آیا نیچے لکھا تھا کل یگ کا چانکیہ ۔ شہر کے سارے اخبارات میں اس کا چرچا ہوا۔ آخر وہ دن بھی آگیا جب سنسکار کالج سے کامیاب ہوکر ڈاکٹر بننے والے طلباء کے درمیان ایک لویہ بھی بیٹھا ہواتھا۔ ہر طالبعلم درونا چاریہ کے چرنوں کو چھوتا اور و ہ مصافحہ کرکے آشیرواد دیتے ۔ ایک لویہ نے سیدھے مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھایا تو درونا چاریہ نے سرٹیفکیٹ تھما کر چھوت چھات کی پرمپرا نبھائی ۔
ایک لویہ اعلیٰ تعلیم کے لیے آسٹریلیا جاکرقلب کے امراض کا ماہر بن گیا۔ دروناچاریہ کوجب دل کا دورہ پڑا تو سرکاری اسپتال میں اتفاق سے ایک لویہ ڈیوٹی پر تھا ۔آپریشن تھیٹر میں اپنے گرو کی شیریانِ اعظم صاف کرنے کے بعد دل کو اپنی جگہ رکھتے ہوئے ایک لویہ کو درونا چاریہ کا مصافحہ کرنے سے احتراز یاد آگیا ۔ اب وہ اپنے گرو کے دل میں صدیوں پرانی ذات پات کی نفرت ورنجش تلاش کررہا تھا تاکہ اسے بھی صاف کرسکے۔