دلت اور اقلیتی فرقہ پر ہونیوالے ظالمانہ حملوں سے عوام انہونی کے خوف سے دوچار ریاست میں یوگی سرکا رکس طرح کا ر اشٹرواد ی نظام لانا چاہتی ہے !

سہارنپور ( خاص خبراحمد رضا) ہمارے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اپنے۱۰ ماہ کے دور اقتدار میں اسمبلی ہاؤس میں اور دیگر باہری علاقوں میں ہونیوالی اپنی میٹنگ اور کانفرنس میں کتنی ہی بار یہ جملہ دہرا چکے ہیں کہ وہ ریاست میں پکا سچا راشٹراواد لانا چاہتے ہیں اسی جملہ کے نتیجہ میں آج عدالتی احکامات کو بلائے طاق رکھتے ہوئے بھگوا بریگیڈ کے افراد نے سہارنپور سے نوئیڈا، غازی آباد سے مراد آباد اور مراد آباد سے لکھنؤ تک سیکولر ازم کی دھجیاں اڑارکھی ہیں جو لوگ ضمانت پر ہیں اور سیدھے راستہ پر چلنے کی کوششیں کر رہیہیں انکو پولیس مقابلہ دکھاکر مارا اور گرفتار کیا جارہاہے ایک ہفتہ کے دوران بھگوا کارکنا ن نے پولیس کی شہ پر باغپت میں وکیل احمد اسکی حاملہ بیوی، ماں اور بہن کے ساتھ جو نازیبہ حرکت کی وہ سبھی کے سامنے ہے دو اپریل بند کے نام پر میرٹھ، مظفر نگر اور ہاپوڑ میں دلت خواتین کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ بھی کسی سے چھپاہوا نہی ہے دلت خواتین نے مجبور ہوکر سرکار کو یہ چیلنج دے دیاہے کہ اگر انپر اور انکے بچوں پر ظلم نہی روکاگیاتو وہ اس ظلم کیخلاف برہنہ ہوکر سڑکوں پر آکر بیٹھ جا جانیکو مجبور ہو جائیں گی؟ عام چرچہ ہے کہ بھاجپائی شاید سماجواد کے مقابلہ اسی طرح کا راشٹر واد لانا چاہتے ہیں اگر یہی راشٹراواد کی اصل تصویر ہے تو یہ کھلی حقیقت ہے کہ آپ اور آپکی سوچ نازیوں سے بھی خطرناک ہے اسی لئے آب کے ممبران اسمبلی پر اغوا، زناکاری اور قتل کے معاملات درج ہونے لگے ہیں آپکے ہی ممبر لوک سبھا آپکے خلاف احتجاج کرنیکو مجبور ہوچکے ہیں جگہ جگہ پہلے مسلم فرقہ پر جبر اور ستم ڈھائے گئے اب سیدھے طور پر دلتوں کو اپنے جبر کا نشانہ بنایا جارہاہے کل ملاکر ریاست کا امن وچین خطرے میں ہیں صاف شفاف ذہنیت والے افسران، عدلیہ اور نظم ونسق کے امور پر فائز اعلیٰ پولیس افسران بھی ان حالات میں خد کو بے بس مانتے ہوئے گھٹن کا احساس کر رہے ہیں! عام رائے ہے کہ ان دنوں ہمارے وزیر اعلیٰ اور انکی ٹیم سبز باغ دکھاؤ اور سرکار چلاؤ کے مفاد پرستانہ عمل پر تیزی کے ساتھ دوڑ رہی ہے ریاست کا ہر دسواں خاندان کسی نہ کسی طرح سے تناؤ اور مذہبی تعصب کا شکار ہے وہیں دلت فرقہ نسلی تعصب کے نتیجہ میں تباہی کے دہانے پر کھڑا ہواہے افسوس کی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دس ماہ کے اتنے نازک حالات پر بھی ہمارے ممبران اسمبلی نہ جانے کس خوف سے چپ ہیں اسمبلی میں بار بار واک آؤٹ کرنا کم ہمتی کی پہچان ہے ظلم پر امن احتجاج ہمارا حق ہے شاید اپوزیشن کے ممبران اب اہنسا اور ستیہ گرہ کی تعریف بھلا بیٹھے ہیں تبھی تو بار بار اسمبلی سے واک آؤٹ کرجاتے ہیں مگر باہر لگاتار بھاجپائیوں کی کتھنی اور کرنی پر پینی نظر رکھنے والے ہر بھاجپائی سازش کا منھ توڑ جواب دینے کو لام بندھ آج بھی نہی ہیں!
گزشتہ دیر شام لکھنؤ میں عدم رواداری کے اہم مدعے پر بولتے ہوئے حصہ داری مشن کے پانچ سے زائد قائدین نے راشٹرا واد اور عدم رواداری پر اپنا رخ صاف طور سے واضع کرتے ہوئے مندرجہ وارداتوں کی روشنی میں مزید بتایاکہ جن بھگوا قائدین نے جنگ آزادی کے سخت ترین حالات میں ملک کیلئے جان کی بازی لگانیوالوں کا ساتھ نہ دیکرانگریزوں کی پیٹھ تھپتھپائی ہو، مہاتما گاندھی کو گولی مار کر قتل کردینیوالے گوڈ سے کا ستکار اورسنمان کیا ہواور جس آر ایس ایس سوچ نے ملک کے تیس کروڑ مسلمانوں کو ہمیشہ دوغلہ ثابت کرنیکی بیہودہ کوششیں کی اور جنہوں نے کبھی جنگ آزادی میں حصہ تک نہی لیا آج انکے منھ سے راشٹر واد کی بات اچھی نہی لگتی ہے! ریاست میں دوکروڑ سے زائد حصہ داری مشن کارکنان کے بے لوث قائد اے ایچ ملک، شیو این کشواہا، دیوندر سنگھ ، وجے پال، حاجی عبد الصمد اور راج بلی گوتم جیسے باوقار افراد ہمیشہ ہی سے آر ایس ایس کی سازشوں پر چوٹ کرتے آرہے ہیں کل بھی ریاستی سطح کے سوشل کارکنان ، دانشور اور باضمیر سیاسی طبقہ کے ممبران کے علاوہ حصہ داری مشن کارکنان اور ریاست کے بے لوث قائد اے ایچ ملک، شیو این کشواہا، دیوندر سنگھ ، وجے پال، حاجی عبد الصمد اور راج بلی گوتم نام نہاد بھاجپائی راشٹر واد کو ووٹ لینے کا ایک اسٹنٹ بتاتے ہوئے کہاکہ مسلم اور دلت اس ملک کے م پشتینی باشبدے ہیں اور یہیں پید ہوئے اور یہیں اس سرزمین پر مرتے آرہیہیں پھر کس عوام یا طبقہ کو راشٹر واد کی سیکھ دینے کی بات ہورہی ہے سبھی قائدین نے کہاکہ ملک کے ساتھ یا ملک کی سچی اور صاف ستھری قیادت کے ساتھ کبھی مسلم یا دلت فرقہ نے دوکہ نہی کیا جبکہ اعلیٰ ذات کے افراد نے پچھلے پانچ ہزار سال سے ملک کی دلتوں اور پچھڑوں کا جینا دوبھر کئے رکھاہے اور یہ سلسلہ آبھی جاری ہے ؟ حصہ داری مشن قائد اے ایچ ملک، شیو این کشواہا، دیوندر سنگھ ، وجے پال، حاجی عبد الصمد اور راج بلی گوتم نے دلت مسلم اور پچھڑی برادریوں پر کئے جانیوالے ظلم وستم کی دردناک وارداتوں کی زبردست مذمت کرتے ہوئے سیدھے الفاظ میں کہا ہے کہ یوپی میں سیاسی سرپرستی کے رہتے غنڈہ راج چل رہا ہے، تمام غنڈے سیاست دانوں کے عزیز و اقارب ہیں اور سیاسی پارٹیوں سے وابستہ ہیں اسلئے غنڈوں اور مافیاؤں کے حوصلے اس قدر بلند ہیں کہ وہ کسی بھی صورت پولیس سے ڈر ہی نہیں رہے ہیں اور جرائم پر جرائم انجام دینے میں بیباک بنے ہیں اناؤ بھاجپائی ممبر اسمبلی اور اسکے بھائی کا سچ آپ سبھی کے سامنے آہی گیاہے! یوگی سرکار کے قیام کے باعث ان علاقوں میں فرقہ پرستوں کی سر گرمیاں لگاتار بڑھتی ہی جا رہی ہیں گائے تحفظ کے نام پر مسلمانوں پر حملہ، مسجدوں کے نمازیوں پر حملہ ، مسجد کے اماموں پر حملہ ، مسجدوں کو نظر آتش کرنا ، مدارس کے طلباء کو بسوں میں اور ٹرینوں میں بلا وجہ مارنا اور پیٹنا ، عورتوں کے ساتھ بھی بد تمیزی اور اب فرقہ وارانہ سوچ پر مبنی اشتعال انگیز بیانات جاری کرنا اور اپنی میٹنگ وغیرہ میں اکثر اشتعال انگیز تقریریں کرنا صوبہ کے حالات کو لگاتار بگاڑنے کی کوشش کا ہی حصہ ہے ! گزشتہ پندرہ دنوں سے میرٹھ کے مختلف علاقوں میں جہاں فرقہ پرستی اور نسلی تعصب کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے وہیں گزشتہ دنوں میرٹھ، ہاپوڑ اور مظفر نگر میں فساد کرانے کی پوری کوشش کی گئی آج جو لوگ دارالعلوم دیوبند کے علاوہ دیگر مدارس اور مساجد کو اپنے ظلم کا اور اپنے تعصب کا نشانہ بنا رہے ہیں ان کو یہ با خوبی سمجھ لینا چاہئے کہ آج اترپردیش ہی نہیں بلکہ پورا ملک انہیں اہم مراکز کی تعلیم کی بدولت ہی امن سے ہے اندنوں نسلی تکرار، فرقہ وارانہ واراداتوں اور اشتعال انگیز حالاتکے درمیان موجودہ سرکار اور اسکی انتظامیہ نے جو کردار مسلم و دلت تنازعات کے دوران ادا کیا وہ سبھی کے سامنے ہے جتنے بھی فسادات صوبہ میں ہوئے ہیں ان سبھی کے اصلی ملزم اور دنگا کرانے والے سیاسی رسوخ والے لوگ آج بھی آزاد ہیں سبھی سے ہائی سظھ کے کریمنل مقد مات واپس لے لئے گئے ہیں جبکہ سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان جھگڑوں میں صرف اور صرف مسلمانوں اور نسلی تکرار میں دلت فرقہ کاہی کا ہوا ہے اور جواب میں دلت اور مسلمان ہی ملزم بنائے گئے ہیں دیوبند ،سرساوہ ، کیرانہ ، شاملی ، باغپت، بڑوت، سہارنپور اور مظفر نگر کے علاقوں میں اقلیتی فرقہ کے ساتھ ہونے والے ظلم پرفرقہ پرست جس طرح کی شرانگیزی کر رہے ہیں اور سب کچھ جانتے اور دیکھتے ہوئے جس طرح سے حکومت اور اس کی انتظامیہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے جو دستور کے عین خلاف ہے! حصہ داری مشن کارکنان اور ریاست کے بے لوث قائد اے ایچ ملک، شیو این کشواہا، دیوندر سنگھ ، وجے پال، حاجی عبد الصمد اور راج بلی گوتم نے بیباک لہجہ میں کہاکہ آجکل یوپی میں پولیس کے مقابلہ گؤ رکشکوں، راشٹر وادیوں کی غنڈہ گردی اور مافیائی گروہ کار اج کاج یوگی سرکار کی پولیس اور انتظامیہ کی چھوٹ کے باعث پھل پھول رہا ہے دیش بھگتی، گؤ کشی اور نسل پرستی کی آڑ میں مسلم طبقہ کے ساتھ ساتھ دلت فرقہ پر بھی زندگی تنگ کیجارہی ہے مرکز کی بھاجپا سرکار کی شہ پر بھاجپا کی قیادت والی سبھی ریاستی سرکاریں اقلیتی طبقہ اور دلتوں کا تحفظ کرنے میں بری طرح سے ناکام ہیں ملک میں بھاجپائی دہشت پسندوں کی اپنی پراؤیٹ سرکار چلتی نظر آرہی ہے کہ جہاں دستور ہند اور جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہاہے !
موجودہ ڈی جی پی او پی ا سنگھ ایماندار ، بے لوث اور محنتی سینئر پولیس افسرآج ریاستی پولیس کے مکھیا ہیں مگر جب تک سیاسی اثر اور دباؤ پولس افسران پر رہے گا تب تک اکیلے او پی سنگھ بھی کرائم پر اپنی پولیس سے کنٹرول نہیں کرا سکتے ہیں سہی کام کیلئے سیاسی دباؤ نہی بلکہ آزادی چاہئے ریاستی اے ڈی جی پی ک مسٹر سنگھ ہ جن پر خاص طور سے ویسٹ یوپی کے نظم ونسق کا ذمہ ہے وہ بھی مسلم اور دلت فرقہ پر لگاتار حملہ کرنیوالے غیر سماجی عناصر اورفرضی گؤ رکشکوں کی نکیل کسنے کے معاملات میں اندنوں اپنے ہاتھ کھڑے کئے ہوئے ہیں ویسٹ اتر پردیش کے سماجوادی ، کانگریسی اور بسپا قائدین کا الزام ہیکہ نسلی تکرار کی آڑ میں دلتوں اور رزشٹراواد و گؤ کشی کے نام پر اقلیتی فرقہ کے خلاف ایک گھنونی سازش کی جارہی ہے پولیس اور انتظامیہ تماشائی بنی ہے، اسمیں کوئی دورائے نہی کہ ہمارے اے ڈی جی پی یوپی آنند کمار بھی ڈی جی پی مسٹرسنگھ کی مانند ہی ایک با صلاحیت اور با اخلاق سینئر افسر ہیں مگر مقامی پولیس ایسے فعال افسروں کی موجودگی کے بعد بھی منصفانہ کاروائی سے کیوں بچ رہی ہے یہ خد میں بڑا سوال ہے آخر پولیس اور انتظامیہ کو مجرموں کے خلاف سخت ایکشن سے روک کسنے رکھاہے؟ زمینی تنازعات ، شوبھا یاتراؤں ، کانوڑ یاترا، گاؤ کشی کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھگوا جوش دلاکربے بنیاد تنازعات کی نمکین خبروں اور افواہوں کے نتیجہ میں سہارنپور کمشنری میں گزشتہ دس ماہ کی مدت میں درجنوں تھانوں کے علاقوں میں سات درجن سے بھی زائد افسوسناک واقعات رونما ہوچکے ہیں ایسے واقعات نیویسٹ یوپی کو بہت حساس بنا دیاہے بات بات میں عوام مذہبی جنون کا شکار ہونے لگتے ہیں جس وجہ سیامن پسند عوام کو بہت دقعت اٹھانا پڑتی ہے مگر اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود بھی ہماری مقامی پولیس بھگوا غنڈوں کے سامنے تماشائی بنی رہتی ہے یس ایس پی ببلو کمار نے کھلے الفاظ میں کہاکہ اب اس ضلع میں قانون ہاتھوں میں لینے کا یہ غیر قانونی رویہ برداشت نہی ہوگااور لاپرواہ پولیس اسٹاف کو بھی معاف نہی کیا جائیگا پولیس چیف نے سبھی واقعہ کی سہی جانچ کے ساتھ ساتھ قصور واروں کی گرفتاری کے احکامات بھی جاری کئے ہیں مگر اسکے بعد بھی دیوبند میں اقلیتی فرقہ پر حملہ اور پھر داداگری اور مسلم مہلوک شخص سے کوئی ہمدردی بھی نہی دکھانا بھاجپائی یونٹ کی ہٹ دھرمی کو ظاہر کرنیکے لئے بہت کافی ہے ہمارے پولیس چیف ببلو کمار کی وجہ ہی سے یہ ضلع ابھی تک پر امن ہے اور امن ہی میں رہیگا بس عوام کے لئے اب صبر کی عمدہ مثال پیش کرنا ہی اشد ضروری ہوگیاہے !