علامتی مکالمہ: یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا

ڈاکٹر سلیم خان
سمندر کے کنارے کی فٹ پاتھ اب ’جونگ ٹریک‘ کہلانے لگی تھی جس پر بھانت بھانت کے لوگ صبح سویرے تیزتیز چلتے دکھائی دیتے تھے۔ کوئی کسی کو دیکھ کر مسکراتا تو کوئی اشارے سلام کردیتا ۔ شکیل جب اظہر امام کے پاس سے گزرتا تو دھیمے سے سلام کرتا ۔ ایک روز اظہر امام نے کہا بیٹے تم اگر دس منٹ قبل آجایا کرو توپاس کی مسجد میں نمازباجماعت بھی پڑھ سکتے ہو۔ شکیل کو اپنے والد کی نصیحت یاد آگئی’ بیٹا جہاں بھی رہنا نماز نہ چھوڑنا‘۔ وہ دوسرے دن شکیل نے دیکھا اظہرامام ہی نماز پڑھا رہے ہیں۔ مسجد سے نکلتے ہوئے اظہر امام نے کہا بیٹے مجھے یقین تھا کہ ایک دن تم مسجد میں آوگے لیکن یہ سب اتنی جلدی ہوجائے گا اس کا اندازہ نہیں تھا۔ شکیل مسکرا کر بولا یہ آپ کی دعاوں کا ثمر ہے ۔
شکیل نے ایک دن پوچھا مولانا آپ کب سے اس جوکنگ پارک میں چہل قدمی کرتے ہیں ؟
بیٹا تمہاری عمر سے جب یہ پارک نہیں تھا ۔اس وقت بھی بعد نمازفجر سمندر کے کنارے کھلی ہوا میں کچھ دیر چل پھر کرمیں گھر چلا جاتا تھا۔
تو کیا پہلے سے لوگ یہاں اسی طرح آتے ہیں ؟
جی ہاں لیکن ان کی تعداد کم تھی اب کافی اضافہ ہوا ہے۔
اچھا توگویا پارک کے بن جانے سے عوام کی دلچسپی بڑھ گئی ؟
کون جانے پہلے جو لوگ اپنے گھر کے آس پاس چہل قدمی کرلیا کرتے تھے اب گاڑی سے یہاں آنے لگے ہوں ۔ اس کے علاوہ دن بھرکمپیوٹر کے آگے بیٹھنے والی طرز زندگی میرا مطلب نے اس ہلکی پھلکی ورزش کی معنویت بڑھا دی ہو۔ پہلے لوگ کام کے دوران تھک جاتے تھے اب ایسا نہیں ہوتا ۔
جی نہیں آج کل تو کام کادباو انسان کو تھکا مارتا ہے۔
مجھے اندازہ ہے کہ دماغ تھک جاتا ہے لیکن جسما نی تھکاوٹ بھی تو انسانی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر دوران خون رگ رگ میں نہیں ہوتا۔
اس بیچ سامنے سے آتے مائیکل نے شکیل کو مسکرا دیکھا اور جواب میں شکیل نے بھی مسکراہٹ بکھیر دی۔ اظہر امام نے پوچھا کیا یہ تمہارا شناسا ہے؟
جی ہاں یہ میرا ہم جماعت بھی ہے اور ہمسایہ بھی۔ مجھے اس کے لباس سے بڑی الجھن ہوتی ہے۔
کیوں تم چاہتے ہو یہ میری طرح کرتا پاجامہ پہن کر آئے؟
جی نہیں لیکن اس تنگ نیکر اور بنیان میں تووہ بالکل بے لباس لگتا ہے۔
تو پھر تم اسے اپنے جیسا ایک ٹریک سوٹ تحفے میں کیوں نہیں دیتے ممکن ہے اس کو پسند آجائے؟
ایک ہفتے بعد مائیکل کا لباس بدل گیا تھا۔ اس نے شکیل جیسی ٹی شرٹ مگر نیچے گھٹنے تک برموڑا پہن رکھی تھی۔
اس کے ایک دن بعد شکیل بھی برموڑا پہن کرآگیا تو اظہر امام نے پوچھا یہ کیا؟ مائیکل کو بدلتے بدلتے تم خود بدل گئے ؟
مولانا آپ نے مائیکل کو نہیں دیکھا اب وہ تنگ نیکر کے بجائے برموڈا پہن کر آتا ہے۔ میں نے سوچا وہ بھی ساتر ہےاس لیے کیوں نہ میں بھی پہنوں۔
وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم نے مائیکل کا نقصان کردیا ۔ آج وہ برموڈا تک آیا ہے ممکن کل تمہاری طرح باوقار پتلون پہنتا لیکن تم نے خواپنا مہذب لباس چھوڑ کر اس کے اندر رونما ہونے والی مثبت تبدیلیوں پرروک لگادی ۔اس کیفیت کو کیا کہتے ہیں جانتے ہو؟ شکیل نے حیرت سے پوچھا۰۰۰۰۰۰۰کیا؟؟؟
یہ مصرع لکھ دیا کس شوخ نے محراب ِ مسجد پر یہ ناداں گر گئے سجدے میں جب وقت قیام آیا