عدلیہ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے کسی وکیل کے نہ پہونچنے پر مسلم مجلس مشاورت سخت برہم ، انتظامیہ سے وضاحت طلب

March 21, 2018

نئی دہلی:21 مارچ ( آمنا سامنا میڈیا ) آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت ،جامعہ ملیہ اسلامیہ سمیت دیگرتعلیمی اداروں کے اقلیتی کردار پر سمجھوتے کرنے والی کوششوں کی مذمت کرتی ہے جوپہلے ہی سے اقلیتی کردارقومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات (قانونی اہلیت والی اتھارٹی)سے منظورشدہ ہے۔ یہ سارے اقدامات پوری طرح سے وزیراعظم نریندرمودی کے زیرقیادت حکومت کے نمایاں نعرہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کی نفی ہی نہیں کرتے بلکہ اس کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہیں۔ان خیالات کا اظہار ملت ٹائمز سے بات کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر جنا ب نوید حامد نے کیا ۔
انہوں نے مزید کہاکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیس میں یہ اس سے بھی زیادہ تعجب خیز بات یہ کہ 13مارچ 2018ءکاآرڈر جو بتاتاہے کہ کوئی بھی کونسل وکیل جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف سے کورٹ میں پیش نہیں ہواجو اس کے اقلیتی کردار کے معاملے کی تائید کرے نتیجتاََ اس کے برخلاف آرڈر پاس ہوگیا۔ایسی لاپروائی، چاہے وہ جان بوجھ کر یا ان جانے میں ہوئی ہو، سخت مجرمانہ ہے کہ ایک مسلم اقلیتی ادارے سے متعلق ایک نہاےت ہی اہمیت کے حامل معاملے کو اتنے غیرذمہ دارانہ طریقے سے نبھایاگیا۔
مجلس مشاورت جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ذمہ داران سے فوری وضاحت کا مطالبہ کرتی ہے کہ وہ بتائے کہ اس کے رجسٹرار اور وائس چانسلرسمیت جامعہ ملیہ اسلامیہ کی طرف سے یہ ناکامی کیوںکر سرزد ہوئی کہ وہ اس حساس مسئلہ پر عدالت میں حاضرنہ ہوسکےں اور معاملے کو جامعہ کے موقف کو سہی انداز میں عدالت میں کیوں نہیں پیش کرسکیں۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر ایک سال کی مدت کے اندر ہی رٹائر ہونے والے ہیں اور شائد وہ ایسے مواقع کا استعمال کرکے برسراقتدار حکمراں پارٹی کو خوش کرنا چاہتے ہےں تاکہ مسلم کمیونٹی کے مستقبل کو فروخت کرکے اپنے مستقبل کو محفوط کرسکیں۔
اس بات کا یقین ہے کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے معاملے پرچاہے غیرمعروف طریقے سے چند عناصرکے ذریعہ سمجھوتہ کرلیاگیاہو، مجلس مشاورت نے مسلم اداروں کی بہتری اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اقلیتی کردار کی حفاظت کے لیے اس معاملے میں مداخلت کا فیصلہ کیاہے ۔