کیا ’ ماہر موسمیات‘ پاسوان نے بھانپ لی ہے ہوا؟ ان دو بیانات نے اڑائی بی جے پی کی نیند 

نئی دہلی 19مارچ : رام ولاس پاسوان کے مخالف انہیں موسمیات کا ماہر کہتے ہیں۔ماہر موسمیات پہلے ہی شناخت کرلیتا ہے کہ کون اتحاد جیتنے والا ہے۔ گزشتہ لوک سبھا انتخابات سے پہلے رام ولاس پاسوان کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہوئے تھے اور اب انہوں نے بی جے پی کے خلاف بیان دیا ہے۔رام ولاس پاسوان نے 17 مارچ کو کہاکہ این ڈی اے کو معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے کے تمام طبقات کو ساتھ لے کر ہی کانگریس نے کئی دہائیوں تک حکومت کی ہے۔ اب اپنے پرانے بیان سے پلٹتے ہوئے رام ولاس پاسوان بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔1977 میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ بنے رام ولاس پاسوان نے مرکزی وزیر کے طور پر اپنے سیاسی اننگز کا آغاز سال 1996 میں کیا ، اس وقت وہ دیوگوڑا حکومت میں مرکزی وزیر ریل بنے تھے۔ سیاست کے بدلتے مزاج کو بھانپتے ہوئے رام ولاس پاسوان سال 1999 میں این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔ انتخابات میں این ڈی اے کی جیت ہوئی اور رام ولاس پاسوان واجپئی حکومت میں وزیر مواصلات اور کوئلہ اور کان کنی وزیر بنے۔ 2004 کے انتخابات سے ٹھیک رام ولاس پاسوان نے گجرات فسادات کے نام پر این ڈی اے کا ساتھ چھوڑ دیا اور پھر وہ یو پی اے میں شامل ہو گئے۔ اس کے بعد وہ سال 2004 سے سال 2009 تک یو پی اے حکومت میں وزیر کے عہدے پر فائز رہے۔2009 کے لوک سبھا انتخابات میں رام ولاس پاسوان کا سیاسی داؤ غلط بیٹھا۔ وہ کانگریس کا ساتھ چھوڑ کر لالو یادو کے ساتھ رہنا پسند کیا ؛ لیکن اس الیکشن میں وہ خود حاجی پور کی اپنی سیٹ بھی نہیں بچا پائے۔ اس کے بعد پورے پانچ سال تک رام ولاس پاسوان کو اقتدارکے سکھ سے محروم رہنا پڑا۔ 2014 میں ہوئے لوک سبھا انتخابات میں مودی لہر کو دیکھتے ہوئے رام ولاس پاسوان این ڈی اے میں شامل ہو گئے۔ سات سیٹوں پر لڑے اور چھ سیٹوں پر جیت کر خود مودی حکومت میں وزیر بنے۔ اگلے سال یعنی 2019 میں لوک سبھا انتخابات ہونے والے ہیں اور اس سے پہلے رام ولاس پاسوان اور ان کے بیٹے چراغ پاسوان بی جے پی کو نصیحت دینے لگے ہیں۔ رام ولاس پاسوان کے پرانے بیانات کو یاد کیا جائے تو وہ کسی کا ساتھ چھوڑنے سے پہلے اسی طرح سے نصیحت بھرے بیان دیتے تھے۔ رام ولاس پاسوان بہار میں دلتوں کے بڑے لیڈر جانے جاتے ہیں، ان کی پارٹی لوجپا کے بہار میں 6 ایم پی ہیں۔ تین رہنما ان کے خاندان کے رکن ہی ہیں۔