مسلمانوں کی تعلیمی سماجی اقتصادی بہیتری کی خاطر سرکردہ مسلمانوں کا اسلام جمخانہ ممبئ میں اہم مذاکرہ ہوا مفتی آفاق احمد قنوج نے اسے افادیت کا حامل قرار دیا

از
سمیع احمد قریشی

> > ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی تعلیمی اقتصادَی صورتحال انتہاہی ابتر ہے-مسلمانوں کی یہ سماجی ابتری کئ دہایوں پر مشتمل ہے- متعدد سرکاری غیر سرکاری سماجی اداروں کے ، مسلمانوںکی سماجیت پر روشنی اور اسکے تعلق سے اعداد وشمار کیساتھ ساتھ ہمارا رات دن کا مشاہدہ بھی اس بات کا شاہد ہے کہ مسلمانوں کے سماجی، تعلیمی ، اقتصادی حالات کیا ہیں- یہ انتہائ ابتر ہے – سرکاری سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مسلمانوں کے حالات دلتوں سے بھی بدتر ہیں- مسلمانوں کی سماجی ابتری کی خاص وجہ تعلیم سے دوری بتلائ جاتی ہے-
> > اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے- اللہ کے نزدیک , دین دین اسلام ہے- اس کی اتباع ہی میں دنیا اور آخرت میں سر خروہی ہے- مسلمانوں کی اک خاطر خواہ تعداد نماز، روزہ ، حج، زکوت وغیرہ اہم فرائیض کیساتھ ساتھ خدمت خلق سماجی گذاری جو دین اسلا م ہی کا اہمیت وافادیت کا حصہ ہے – اسے اس قدر اہمیت نہیں دیتی ،جسقدر دینا چاہییے ، ورنہ سرسید احمد خان کے علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی بنانے کے بعد کیا مسلمان اب تک اس قدر مفلس تھا کہ وہ مزید اس جیسی اک یونیورسٹی بنا نہ پایا؟ – آخر علم حاصل کرنے کی تعلیم و تلقین مذہب اسلام میں ہے – وہ کہیں اور نہیں – مسلمان جب جب اس پر چلا اک دنیا کی خدمت کی – یہ تاریخ کا اک روشن باب ہے- آج کی دنیا انتہاہی ترقی یافتہ کہلاتی ہے- جس میں سائینس اور ٹیکنالوجی کا بڑا ہاتھ ہے- اس سائینس، میڈیکل سائینس کے اکثر وبیشتر سوتے سینکڑوں سال پہلے طب اور سائینس کے مسلم ماہرین کے دماغوں سے نکلے ہیں- جن کی فکر وعمل پر دین اور شریعت حاوی تھے-
> > پہلے قوت فکر وعمل پہ فنا آتی ہے
> > پھر قوموں کی شوقت پہ زوال آتاہے
> > ہماری دینی پستی ہی ہماری تعلیمی سماجی اقتصادی ترقی کا باعث ہے- اس سے انکار کیا نہیں جا سکتا-دین اسلام میں تعلیم کا حاصل کرنا ہر مسلم مرد و خاتون پر فرض ہے– دین شریعت کے منظر پس منظر میں عصری علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے- ہم سے زیادہ خدمت خلق کی تعلیم وتلقین کہیں اور نہیں- ہم دیکھتے ہیں کہ ممبئ جیسے شہر اور ہندوستان میں عیسائیوں کی تعداد ہم سے انتہائ کم ہے- مگر ان کے اسکول کالج ہم مسلمانوں سے زیادہ ہیں- اور یہ مسلم بستیوں کے قریب بھی نظر آتے ہیں – جہاں مسلم بچے بھی خاطر خواہ حاصل کرتے ہیں- جہاں مغربی طرز تہذیب کا ماحول ہوا کرتا ہے- ہمارے لئے شرعی ماحول میں عصری علوم کا حاصل کرنا ضروری ہے – یہ ناممکنات میں نہیں ہے- نیچے سے لے کر اعلی تعلیم دین اور شریعت کے ماتحت ہو ، ممبئ اور ملک کے متعدد صوبوں میں مسلمانوں میں زبانی نہیں عملی سطح پر دلچسپی دکھائ پڑ رہی ہے- یہ اک خوش آئیند پہلو ہے – ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلامی ماحول میں ملک کے متعدد صوبوں میں نچلی سطح کیساتھ ساتھ اعلی طبی کالج،انجینئیرینگ کالج اور متعدد شعبوں میں تعلیمی کالج اور ادارے بن رہے ہیں- یہ اہمیت کی بات ہے کہ کئ دہائیوں سے سوتے ہوئے مسلمانوں میں تعلیمی سماجی ا نگڑائیاں ، بیدار ہورہی ہیں- یہ انتہائ افادیت کی بات ہوگی کہ ہم شریعت کے پیش نظر عصری علوم کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی کے بعد مزید یونیورسٹی بنایں- تعلیم کی دین اسلام میں انتہائ اہمیت ہے- ” اقراء“ یعنی پڑھ اس لفظ سے قرآن کانزول ہا- جس پر ہمارا ایمان ہے- اقراءکے حکم سے وجود میں آنے والی ہماری مسلم قوم نے جب تک علم و عرفان سے تعلق قائیم رکھا – دنیا کی قیادت وسیادت کی حامل رہی- حکمرانی رہی ہو یا علم کا میدان،سائینسی تحقیق رہی ہو یاطب کے میدان یہاں معرکتہ آراء کادناموں میں مسلمان سب سے آگے رہا-لیکن جب مسلمانوں کا اپنے دین اور اسکے نتیجہ میں علم سے تعلق کمزور ہوگیا- تو مسلمانوں کی سر بلندی میں زوال آگیا- جب تک مسلمان علم میں آگے بڑھ نہیں پاتے یہ زوال جا نہیں سکتا-ہم آگے بڑھ نہیں سکتے –
> > گذشتہ دنوں ممبئ میں ” ہندوستانی مسلمان اور انکا کامستقبل “ اس عنوان پر اہمیت کاحامل مذاکرہ ہوا- جس میں دینی و عصری تعلیم ،معیشت , سماجیت جیسے اہم شعبوں میں ماضی، حال ، کے ساتھ ساتھ بڑی تفصیل سے مسلمانوں کے کردار پر اہم باتیں ہوئیں – وہ درج ذیل ہیں-
> > 1857 میں جنگ آزادی میں ہم ہندوستانیوں کے انگریزوں کے خلاف لڑاہی میں ہار کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی ابتری کا بد ترین سلسلہ شروع ہوا، جو ١٩٤٧ تک یعنی ملک آزاد ہونے تک، مسلمانوں کے ساتھ چلا- جنگ آزادی میں مسلمانوں نے بڑھ چڑھکر حصہ لیاتھا- ملک آزاد ہونے کے بعد انکی بھی سماجی بہیتری ہوگی اسکے سپنے مسلمانوں نے دیکھے- افسوس ناک پہلو ہے کہ مسلمانوں کےساتھ اس قدر نہ ہوسکا- جس میں حکومتوں کا بھی ہاتھ رہا اور اسی کے ساتھ بذات خود مسلمان بھی اپنی سماجی ترقی کی خاطر سوئے رہے – یہ باتیں اک فاضل مقرر نے کہی تو دیگر مقررین نے یہ کہا کہ اپنی سماجی ترقی کی خا طر صرف حکومتوں پر مسلمانوں کو تکیہ کرنے سے کام نہیں چلے گا- تعلیمی ابتری دور کرنے ہی سے مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر جدوجہد کرنا ہوگی- معاشی ترقی کی خاطر مطالعہ کرکے اک منصوبہ کے تحت محنت ومشقت کرنا ہوگی- فضول وبےجا رسموں میں پانی کی طرح روپیہ بہانا بند کرنا ہوگا- کروڑوں اربوں روپیہ فضول باتوں میں مسلمان خرچ کررہے ہیں ّ آج یوم اعمال ہے ،کل یوم احتساب ہوگا ، مسلمان فضولیات سے بچیں – مستحق ہشیار، ذہین ہشیار مسلم طالب علموں کی ، معاشی کفالت، تحصیل علوم کے لئے کرنا ہوگی- نئے کالج، درس گائیں اور ہوسٹل مسلم طلباء کے لئے کرنا ہونگے-دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی ہونا چائییے معاشی ترقی کی خاطر نئے خصوصی کورس اور ڈگریوں سے مسلم طلباء کو آشناء کرانا ہوگا- تاکہ وہ اسے سیکھ کر آگے بڑھیں- منڈی اور بازار پر مسلمانوں کو خصوصی توجہ دینی ہوگی- تاکہ مسلمانوں کی اقتصادی صورتحال میں بہیتری ہو- آخر کیاوجہ ہے کہ جنوبی ہندوستان کے مقابلہ شمالی ہندوستان کا مسلمان سماجی تعلیمی سطح پر انتہائ پسماندہ ہے- زکوت اور اوقاف کی جائیدادوں کا ہم مسلمانوں کا مناسب اور معیاری دیکھ بھال ضروری ہے- اس سے مسلمانوں کی سماجی ترقی میں کافی مدد ہوسکتاہے- سر سید احمد خان نے سماجی تعلیمی ترقی کی خاطر علی گڑھ یونیورسٹی بنائ، جس سے مسلمانوں کی تعلیمی سماجی ترقی میں مدد ملی- مسلمانوں کو ہماری جمہوری حکومت کے سسٹم – نظام میں داخل ہونا ضروری ہے ، اس کے خاطر مسلم تعلیم یافتہ نوجوانوں کو آئ ایس اور آئ پی ایس بنانےکی ضرورت ہے- ہم تعلیم کی تبلیغ واشاعت کو اپنا شیوہ بنا لیتے تو آج ہماری سماجی اور تعلیمی پسماندگی اسقدر نہ ہوتی- مذاکرہ میں نئے نئے تعلیمی کورس ، کمپیوٹر ودیگر سائینسی ، ٹیکنیکل و طبی تعلیم پر سیر حاصل گفتگو ہوئ – مولانا سیداطہرعلی ،مشب، صغیر ڈانگے، ارشد خان ، یوسف ابراہانی ، سہیل لوکھنڈ والا، سعید حمید،عامر ادریسی، سعید خان،عاقف دفعدار، معبود خان ، ناصر بلساروی ، مشیر انصاری، داؤد خان، ادریس نظامی نبی قریشی وغیرہ نے مذاکرے میں شرکت کی ، نیز ان میں متعدد نےاپنے خیالات کا اظہار کیا-
> > انتہائ اہمیت وافادیت کے سیر حاصل مذاکرے کی صدارت نمایاں دینی شخصیت پیر طریقت ،مفتی آفاق احمد سربراہ الجامعتہ الاحمدیہ قنوج نے کی- آپ نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ” ہندوستانی مسلمان اور انکا مسقبل مذاکرہ انتہائ اہمیت کا حامل رہاکہ اس میں سماجی وتعلیمی میدان عمل کے سرکردہ افراد نے شرکت کر کے ، انتہائ قابل عمل رائے کا اظہار کیا- اسی طرح کی آراء سے ملت کے مسقبل بننے میں کافی مدد مل سکتی ہے – یہ قابل ذکر بات ہے کہ مفتی آفاق احمد جوقنmوج میں دینی اور عصری علوم میں مدرسہ اور اسکول چلا رہے ہیں- جس سے سینکڑوں مسلم طلبہ استفادہ حاصل کر رہے ہیں , مفتی صاحب قنوج میں شریعت کے پیش نظر عصری علوم کی اک نئ یونیورسٹی کے قیام کا منصوبہ رکھتے ہیں- ہندوستانی مسلمان اور اسکا مستقبل مذاکرہ انتہائ کامیِاب رہا – یوں اگر علمائے دین، مساجد کے منبروں سے خطاب کرنے والے دینی علوم کیساتھ ساتھ عصری علوم کی خاطر سرگرداں ہو جایں تو ملت کی فلاح بہبود میں نمایاں مشبت اثرات ہوں- اللہے فضل وکرم سے متعدد جگہوں پر ایسادیکھنے کو مل رہا ہے-