ڈاکٹر سلیم خان
عربی زبان میں محاورہ ہے ’’اقرب لک عقرب لک ‘‘ ۔ یعنی جو قریب ہوتاہے وہی بچھو کی مانند ڈنک مارتا ہے۔ اس کی تازہ مثال تریپورہ کے اندر پردھان سیوک نے پیش کردی جب وہ اسٹیج پر موجود سبھی لوگوں کے سلام کا جواب دیتے ہوئے اپنے گرو لال کرشن اڈوانی کے سامنے آئے ۔ اڈوانی جی نے احترام سے ان کے استقبال میں ہاتھ جوڑ دیئے لیکن مودی جی ان سے منہ پھیر کر آگے بڑھے ۔ ان کے بغل میں موجود کمیونسٹ پارٹی کے سابق وزیراعلیٰ کے سامنے رکے مصافحہ کیا اور گفت و شنید بھی کی ۔ پھر آگے بڑھے تو بی جے پی کے سابق صدر مرلی منوہر جوشی نے ہاتھ جوڑ دیئے ۔ ان کا اور آگے سارے لوگوں کے سلام کا جواب دیا ۔ جس وقت وزیراعظم مانک سرکار سے بات چیت کررہے تھے اس وقت لال کرشن اڈوانی کے تاثرات ایسے تھے کہ دشمن کو رحم آجائے ۔ بقول مادھو رام جوہر؎
اے دوست تجھ کو رحم نہ آئے تو کیا کروں دشمن بھی میرے حال پہ اب آب دیدہ ہے
شمال مشرقی ریاستوں کی دو حلف برداریوں میں مودی جی شریک نہیں ہوے صرف تیسری میں پہنچے ۔ اس میں شک نہیں کہ تریپورہ کے وزیر اعلیٰ بپلب داس کی حلف برداری میں بلائے جانے والے مہمانوں کی فہرست وزیراعظم نریندر کی رضامندی سے بنی ہوگی ۔ ان میں لال کرشن اڈوانی اور مرلی منوہر جوشی کو یہ بتانے کے لیے شامل کیاگیا کہ جو کام تم لوگ نہیں کرسکے وہ ہم نے کردکھایا لیکن جب بلا ہی لیا تھا تو کم ازکم اچھا سلوک کرتے ۔ اچھا نہ سہی تو کم ازکم برا سلوک تو نہ کرتے ۔ یہ کیا کہ پہلے تو اپنے دشمن کو دونوں صدور کے درمیان بیٹھنے کا موقع دیا ۔ اس سے رک کر نہ صرف مصافحہ کیا بلکہ گفتگو بھی ۔ جوشی کی جانب مسکرا کر تک نہ دیکھا مگر ہاتھ جوڑ دیا اور اڈوانی کی طرف دیکھنا تک گوارہ نہیں کیا ۔ کھلے عام اس طرح کی عوامی رسوائی تو کوئی دشمن کی بھی نہیں کرتا بقول شاعر ؎
آ گیا جوہرؔ عجب الٹا زمانہ کیا کہیں دوست وہ کرتے ہیں باتیں جو عدو کرتے نہیں
گجرات فساد کے بعد وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی نے اسٹیج کے اوپر سب کے سامنے بھری مجلس میں وزیراعلیٰ نریندر مودی کو راج دھرم پالن کرنے کی تلقین کی تھی۔ سنا ہے وہ مودی جی کو ہٹانے کی تیاری کرچکے تھے اور گوا میں ہونے والی قومی مجلس عاملہ کی نشست میں ان کی چھٹی طے ہوگئی تھی لیکن اڈوانی جی نے بازی الٹ دی ۔ انہوں نےمودی کو ازخود استعفیٰ دینے کا مشورہ دیا اور اپنے چیلوں پرمودمہاجن اور ارون جیٹلی سے استعفیٰ کی مخالفت کرواکے مودی جی کی نیا پار لگادی ۔ اڈوانی جی نے اگر وہ غلطی نہیں کی ہوتی تو آج انہیں یہ دن نہیں دیکھنا پڑتا۔ جس گوا میں اڈوانی جی نے مودی جی کو جیون دان دیا اسی گوا میں ۱۲ سال بعد مودی جی نے اڈوانی جی کو مرتیودنڈ (سزائے موت ) دے دی یعنی اڈوانی کو ہٹا کر خود وزیراعظم کے امیدوار بن گئے ۔ وہ دن ہے اور آج کا دن اڈوانی جی کے اچھے دن نہیں آئے ۔ اڈوانی جی کو اپنے ماضی کی غلطی پر یہ شعر یاد آتا ہوگا؎
میں حیراں ہوں کہ کیوں اس سے ہوئی تھی دوستی اپنی