اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا مقصد صرف زیادہ پیسہ کمانا ہی نہیں ہونا چاہئے:ظفریاب جیلانی مولانا عبدالعلی فاورقی کی نئی کتاب’یادوں کے جھروکوں سے‘ کی تقریب رسم اجراء مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن ہال میں پروقار ادبی تقریب
لکھنؤ۔ (سعید ہاشمی)
کوئی بھی تحریر ہو یا کتاب اگر وہ معلوماتی نہیں ہے تو اس کا فائدہ کسی کو نہیں ہوتا ۔ اس کے برعکس کچھ کتابیں ایسی معلوماتی ہوتی ہیں کہ ان کے مطالعہ سے نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پرلطف ودلچسپی کاباعث بھی ہوتی ہیں۔ مولانا عبدالعلی فاروقی کی نئی کتاب ’یادو ں کے جھروکوں سے‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔ جس میں مختصر مضامین ہیں ۔جو بہت ہی تاریخی، معلوماتی، ادبی چاشنی سے لبریز اور پرلطف بھی ہیں۔ مذکورہ خیالات کا اظہار مقررین نے مدیر البدر مولانا عبدالعلی فاروقی فاضل دیوبند کی نئی کتاب ’یادو ں کے جھروکوں سے‘ کی رونمائی کے موقع پر امین آباد واقع مولانا محمد علی جوہر فاؤنڈیشن ہال میں منعقدہ پر وقار ادبی تقریب کے دوران کیا ۔ سابق ڈی جی پی رضوان احمد علیگ (سبکدوش آئی پی ایس )صدر مجلس استقبالیہ اور مولانا ڈاکٹرسعیدا لرحمن اعظمی ندوی کی صدارت میں ہوئی تقریب میں ماہر قانون داں ظفریاب جیلانی ایڈوکیٹ نے کہاکہ کتاب کے مطالعہ سے بہت سی باتوں کا علم ہوا، خاص طور پر قاری طیب صاحب کے ہجر ت کے ارادہ اور مولانا حسین احمد مدنی کے انہیں روکنے کا تذکرہ بہت کارآمد ہے۔ ظفریاب جیلانی نے کہاکہ کتاب کے حوالے سے یہ بھی علم میں آیا کہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کا مقصد صرف زیادہ پیسہ کمانا ہی نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ جذبہ خدمت کا ہونا چاہئے، پیسہ تو خود ہی آجائے گا۔ اسی طرح نئی نسل کو یہ بھی علم ہوگا کہ 70کی دہائی میں حج کے لیے سعودی عرب جانے کے لیے ممبئی سے ہوائی سفر کرنا پڑتا تھا، دہلی سے نہیں۔اسی طرح بابری مسجد کے تعلق سے ہوئی لکھنؤ کی میٹنگ کا حوالہ بھی بہت مفید ہے۔ لکھنؤ یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے پروفیسر عمر کمال الدین نے فارسی اشعار کے حوالے سے مولانا کی شخصیت اور قلمی خدمات پر روشنی ڈالی۔ لکھنؤیونیورسٹی ہی کے شعبہ عربی کے سابق صدر پروفیسر شبیر احمد ندوی نے کہاکہ کتاب کا پہلا حصہ ہی اس کی روح ہے، جس میں دعوت عمل ہے۔ پورا تعارف ہے ، طلباء وعام قاری کو اس سے تحریک و ترغیب حاصل ہوگی۔ اس سے قبل تقریب کا آغاز متعلم محمد ولید عبدالرحیم فاروقی نے قرآن کریم کی تلاوت سے کیا۔ محمدسلیم تابش نے نعت و منقبت کا نذرانہ پیش کیا۔ نظامت کے فرائض انجام دے رہے رحمت لکھنوی نے شرکاء تقریب کا مختصر تعارف کرایا۔ مولانا عبدالعلی فاروقی نے مضامین کو جمع کرنے اور کتابی شکل دینے کی تحریک پر روشنی ڈالی۔ مولانا کاظم ندوی نے مصنف اور کتاب کا مختصر تعارف کراتے ہوئے خاندانی خدمات پر روشنی ڈالی۔ مقالہ نگار رضوان فاروقی نے کتاب کی اہمیت و افادیت پرروشنی ڈالتے ہوئے اس کی خریداری پر بھی زور دیا۔ ڈاکٹر فرقان علی مخمور کاکوروی نے اپنے مقالہ میں کتاب اور صاحب کتاب کی علمی، عملی کاوشوں پر تفصیلی گفتگو کی۔ محمد غفران نسیم نے اپنے مقالہ میں صاحب کتاب کی اسلامی فکر، کتاب کے موضوع اور انشائیہ نگار ی پر مختصراً روشنی ڈالی۔ آخر میں مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی ندوی نے دعائیہ کلمات میں صاحب کتاب کے علم، خطابت، صحافت اور ملی و دینی خدمات کے حوالے سے ان کا فیض عام ہونے کی دعا کی۔ تقریب میں چودھری شرف الدین، رہبر جونپوری، مولانا رفیق القاسمی، ڈاکٹر انیس انصاری ملک زادہ پرویز، مولانا محمود حسنی، مولانا عمار حسنی، مفتی حارث عبدالرحیم فاروقی، مولانا ابوالحسن، مولانا عبدالولی فاروقی، حافظ عبدالکریم فاروقی،ڈاکٹر معراج ساحل، سید محمد حسین ہاشمی، حسین امین، ڈاکٹر مسیح الدیں ، قمر سیتاپوری، رفعت شیدا صدیقی، جاوید ہاشمی، ڈاکٹر اسرار قریشی، سمیت بڑی تعداد میں معززین شہر موجود رہے۔ کنونیر تقریب محمد وصی صدیقی نے تمام حاضرین کا شکریہ اداکیا۔