شریودھن نگر پالیکا نے زمین مالکان کو پیسہ دئیے بغیر شریودھن بازار پیٹھ کی زمین اپنے نام پر کر لی تھی اور مچھلی مارکیٹ باندھنے کیلئے کروڑوں کی رقم بھی منظور کر لی تھی. اور ایک بڑے نیتا کے ہاتھوں سے سنگ بنیاد بھی رکھا تھا.
اس بھرشٹاچار کی کیس کئی سالوں سے مختلف عدالتوں میں چل رہی تھی. اس مدعے کو سماج سیوک مولانا دانش لانبے نے 2015 میں اٹھایا اور قانون حق معلومات (RTI) کے ذریعہ کڑی مشقت سے لڑا. یہ کیس تحصیلدار، پرانت، کلکٹر، کمشنر، منترالیہ سے ہوتے ہوئے وزیر اعلی دیوندر فرنوس کے لوک شاہی دن عدالت میں پہنچا. انہوں نے اس پر ایک سال تحقیقات کروائی. 5 فروری 2015 کو انہوں نے دوسری مرتبہ لوک شاہی عدالت میں اس کیس کو لیا اور پورے مہاراشٹر کے سارے کلکٹر اور سارے منسٹری کے سیکرٹری کے سامنے اس کیس کو سنا اور انصاف بھرا فیصلہ پوری عدالت کے سامنے اس طرح دیا : 1) آج کے قاعدے اور بازار بھاو کے حساب سے پیسے دئے جائیں یا 2)TDR دیا جائے یا 3) PPP کیا جائے. اور اگر 30 دن میں یہ نہ کیا گیا تو 4) زمین کو اصل مالکان اور کسانوں کو واپس کر دی جائے.
20 دن گذر گئے لیکن شریودھن نگر پالیکا تمام ذمہداران، اپنے وکلاء سے مشورہ بھی نہیں کر پائے. خصوصاً اس پارٹی کے لوگ جو خود کو مسلمانوں کا رہنما و مددگار ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں وہی لوگ اس کیس کو طول دینے پر تلے ہوئے ہیں. اور جو لوگ مسلمانوں کے دشمن بتائے جاتے ہیں وہ مسلمانوں کو انصاف دلانے کیلئے لڑتے نظر آتے ہیں.
عزت مآب وزیر اعلٰی کا شکریہ ادا کرتے ہوے مولانا دانش نے کہا کہ نگر پریشر کے انتظامی ذمہداران اور عہدیدار نگر ادھیکش ملکر عزت مآب وزیر اعلٰی کے لوک شاہی دن کے فیصلے کا عملی انکار و توہین کر رہے ہیں. جبکہ ان اپنے سے اعلٰی عہدیداروں کے فیصلے کو نافذ کرنا چاہیے. انہوں نے 30 دن کچھ سوچ سمجھ کر ہی بولا ہو گا.
"`جمہوریت کو باقی رکھنے لیے لوک شاہی دن کا انعقاد کیا جاتا ہے اور جب لوک شاہی دن میں دیے گئے فیصلے کو، وہ بھی سب سے بڑے لوک نیتا یعنی وزیر اعلی کے عدالت کے فیصلے کو، اگر انتظامیہ کے ذمہداران نہیں مانتے ہیں تو جمہوریت کی اور اس ملک کے جمہوری و قانونی نظام کی بھی توہین ہے."`
*_مولانا دانش لانبے نے کہا کہ اگر وزیر اعلی دیوندر فرنوس صاحب کے لوک شاہی دن کے عدالتی فیصلے کا احترام کرتے ہوئے اس کو نگر پالیکا اور نگر ادھیکش نے عملاً نافذ نہیں کیا تو وہ انصاف ملنے تک بھوک ہڑتال کرینگے_* ، چاہے نتیجہ کچھ بھی ہو، تاکہ عوام کا اعتماد اس ملک کے جمہوری نظام اور دستور العمل سے نہ اٹھ جائے.