بہتر علاج نہ ملنے کے سبب مہلک امراض سے ہونیوالی ا موات سے بے خبر سرکار مہلک امراض سے بچاؤ کیلئے سرکاری اسپتالوں میں علاج کا فقدان؟
سہارنپور( خصوصی رپورٹ احمد رضا)ضلع میں لمبے عرصہ سے قائم تمام چھوٹے اور بڑے سرکاری ہاسپٹلس آج بھی وائرل بخاروں کے ساتھ ساتھ فالج، ٹی بی اور کینسر جیسے مہلک امراض کو روکپانے میں بری طرح سے ناکام ہیں یہاں کے سرکاری اسپتال بلڈ بنک ہونے کے بعد بھی کسی بھی لاغر اور لاچار مریض کو بلڈ تک دینے کے قابل بھی نہی ہیں یہاں صرف دکھاوا اور خانہ پوری کے سوائے کچھ بھی نہی سبھی سرکاری دعوے محض اخباری اور نمائشی ہوتے ہیں سچائی ان دعوؤں سے بہت الگ ہوتی ہے، مریض تڑپتے رہتے ہیں بھرتی کرنیکے بعد یہاں بہترین ٹیسٹ اور میڈیسن کا اکثر فقدان دیکھنے لائق ہوتاہیزیادہ دباؤ آنے پر مریض کو باہر ریفر کردیا جاتاہے! یہ سبھی جانتے اور مانتے ہیں کہ پرائیویٹ ہاسپٹل صف اور صرف عوام کے جانی اور مالی استحصال کا مرکز بنے ہوئے ہیں مہلک امراض میں یہ ہاسپٹل رقم اینٹھنے کی غرض سے مریض کو چارپانچ دن اپنے پاس رکھتے ہیں اور پھر مریض کو ریفر کردیتے ہیں سرکاری اسپتال تو ہر ادنیٰ اور بڑے مرض کے بیمار کو سیدھاہی ہائر سینٹر ریفر کردیتے ہیں اکثر شام ۶بجے سے دیررات ۳۔۴ بجے تک ڈاکروں کا برتاؤ بس دیکھنے لائق ہوتاہے تنگ وپریشان حال مریضوں کے ساتھ دھوکہ انکی فطرت میں بھر چکاہے سرکار کے تمام اعلانات اور دعوے محض سنہرے فریب کے سوائے کچھ بھی نہی کمشنری میں مہلک امراض کے بڑھتے دائرہ کو دیکھتے ہوئے آج کمشنری میں مہلک اور جان لیوا بیماریوں سے بچاؤ کے لئے خاص میڈیکل یو نٹ کاقیام ضروری ہوگیاہے تاکہ عوام کو بے موت مرنے سے بچایاجاسکے ضلع سہارنپور میں ماہ اگست ۲۰۱۱کے آس پاس بخاروں سے ہوئی نوسو سے زائد موتیں آج بھی معمہ بنی ہیں ہزار بار ٹیسٹ کرائے جانے کے بعد بھی مرکزی سرکار کی تین رکنی جانچ ٹیم ، اتر پردیش سرکار کی میڈیکل تحقیقا تی ٹیم اور دیگر جانچ ایجنسیز بھی آج ۲۰۱۸ کے ماہ فروری تک یہ نہی جان پائی کہ ان نو سو سے زائد مظلومین کی موتوں کی اصل وجہ کونسا مہلک بخار تھا؟حالت سبھی کے سامنے ہیکہ جب چیف منسٹر کے شہر میں واقع بڑے اسپتال میں دوہزار کے قریب بچے دم توڑ سکتے ہیں تب دیگر اضلاع میں ہیلتھ سروسیز اور سینٹروں کی حالت کیا ہوسکتی ہے جہاں تک سہارنپور کی بات ہے تویہ امر قطعی صاف ہیکہ کے یہاں تو کچھ بھی سہولیات آج تک مکمل طور سے دستیاب ہی نہی جبکہ یہاں کا اسپتالوں کا بجٹ بھی سالانہ پچاس کروڑ کے آس پاس ہے مگر خرچ کہاں ہورہاہے کوئی نہی جانتا صرف افسران ہی جانتے ہیں!
قابل ذکر ہیکہ ۲۰۱۱ جانلیوا بخار کے اس افسوسناک اور دل سوز واقعہ کے تین سال بعد ہی سے تحصیل رامپور منیہاران کے چار گاؤں خاص طورسے موضع مرزاپور اور یہیں کرشنا ندی کے آس پاس واقع گاؤں میں صرف تین سال کی مدتمیں کینسر سے مرنے والے اور کینسر کی مہلک بیماری سے متاثر افراد کی تعداد بھیچارسو کی تعداد پاکرچکی ہے، ضلع کے چند علاقوں میں پچاس کے قریب افراد تین ماہ میں ہی اس مہلک بیماری سے دم توڑ چکے ہیں علاقہ کے لوگوں میں لگاتار کینسر کی اس مہلک بیماری کیبڑھنے کی افسو سناک خبریں لگاتار اخباروں کی سرخیاں بنتی آرہی ہے لیکن اس دل کو دہلادینے والی اطلاع پر بھی حکومت اور افسران ابھی تک دیگر کاموں ہی میں مشغول ہیں اس جانب کسی نے بھی سنجیدگی کے ساتھ دھیان ہی نہی دیا ہے؟ کینسر کو لیکر ہمارے ملک میں تمام سیاسی جماعتیں صرف وہ عملی کام ہی انجام دیتی آرہی ہیں کہ جو کام انکے اور انکی پارٹی کے لئے سود مند ہو گزشتہ ۳۰ سالوں میں ملک نے ہر میدان میں ترقی کے جھنڈے گاڑنے کا دعویٰ سیناتان کرکیا مگر قابل غو ر ہے کہ ہمارے اس ترقی پزیر ملک میں آج بھی عوام ٹی بی، کینسر اور دمہ جیسی بیماریوں سے جوجھتے ہوئے دم توڑ رہے ہیں مرکز میں گزشتہ ۳۰ سالوں میں بہت سی سرکاریں بنی اور مٹی مگر کسی بھی سرکار نے مہلک بیماریوں کو کنٹرول کرنے کا اعلان تو کیا اسکام کے لئے فنڈ بھی مہیا کرایا مگر افسوس کہ کسی بھی سرکار نے عام آدمی سے جڑی ان مہلک اور جان لیوا بیماریوں پر قابو کئے جانے کے بابت کبھی بھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہی کیا آج پہلی فرصت میں یوپی میں ان مہلک بیماریوں پر کنٹرول کے لئے اس طرح کے خاص سینٹر قائم کرنے کی خاص ضرورت ہے ؟آپکو بتادیں کہ ضلع سہارنپور کے مرزاپور گاؤں میں کینسر کے درجنوں مریض موجود ہیں اور ۳۰ سے زائد لوگ اسی گاؤں میں گزشتہ عرصہ میں کینسر کی مہلک بیماری سے دم بھی توڑ چکے ہیں!ملک میں کینسر کے معاملہ میں اہم کردار نبھانے والی ایک تنظیم ممبئی میں سرگرم ہے جسکو مرکز سے ایڈ بھی حاصل ہورہی ہے جبکہ آس پاس ایسا کوئی دیگر سینٹر نہی ہے جسکے نتیجہ میں روپیہ سے کمزور افراد علاج سے محروم رہتے ہیں آج اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے سب سے اہم بات یہ ہے کہ پچھلے ہفتہ کینسر پر ریسرچ کرنے والی اور کینسر کی مہلک بیماری پر غوروفکر کرنے والی اہم تنظیم انڈین کینسر سوسائٹی (آئی سی ایس ) مہاراشٹرا کی ممبئی شاخ کی انچارج ڈاکٹر گوری رویکر نے بتایاہیکہملک میں ہر سال تقریباََ ۱۷ لاکھ لو گ کینسر کا شکار ہو تے ہیں اور علاج معالجہ کرکے لاکھوں کی رقم برباد ہوجانے پر بھی ان مریضوں میں سے چھ یا ساتھ لاکھ لوگوں کی اس جان لیوا کینسر کی بیماری سے موت ہو جا تی ہیاندازہ یہ ہے کہ اگر اس انسان دشمن بیماری پر جلد قابو نہی پایاگیا تو ۲۰۳۵ تک اس بیماری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد دوگنی کر تقریباََ ۲۷ لاکھ ہو جا ئے گی اور ان میں سے ۱۲ لاکھ کینسر کے مریضوں کی ہر سال موت ہو جا یا کرے گی ۔ انڈین کینسر سوسائٹی (آئی سی ایس ) کی ممبئی شاخ کی انچارج ڈاکٹر گوری رویکر نے بتا یا کہ امریکہ میں ۶۰ فیصد کینسر کے مریض پانچ سال تک بہت اچھی زندگی بسر کر تے ہیں لیکن ہندوستان میں اس کی شرح صرف ۳۰ فیصد ہی ہے انہوں نے بتا یا کہ کینسر بیداری کی کمی ہونے اور اقتصادی تنگی کی وجہ سے لوگ اس بیماری کا وقت پر علاج نہیں کروا پا تے ہیں جس کی وجہ سے ۷۰ فیصد کینسر کے مریضوں کی وقت سے پہلے ہی موت ہو جا تیہے ڈاکٹر رویکر نے بتا یا کہ کینسر سے متاثر غریب لوگوں کے علاج کے لئے سوسائٹی نے کینسر کیو ر فنڈ اسکیم شروع کی ہے اس منصوبہ کے تحت ایک لاکھ روپے سے کم کمی سالا نہ آمدنی والے لوگوں کا مفت علاج کیا جا تا ہے ڈاکٹر گوری رویکر نے بتا یا کہ ۱۸ سال سے کم عمر کے مریض جن کے زندہ رہنے کی شرح ۷۰ فیصد اور ۱۸ سال سے زائد عمر کے مریض جن کے زندہ رہنے کی شرح ۵۰ فیصد ہو ، اس منصوبہ کے تحت علاج کرا نے کے اہل ہیں مہلک امراض کی بات اگر ہم ضلع سہارنپور سے ہی اگر شروع کریں تو یہ جان کر آپکو حیرت ہوگی کہ گزشتہ سال سن ۲۰۱۱ میں مہلک بخاروں نے لگاتار سات ماہ تک اس ضلع میں وہ قہر ڈھایا کہ اس ضلع کیہزار سے زائد لوگوں کو اپنی جان سے ہاتھ دھونے پڑے اس مہلک بخار کا سب سے زیادہ اثر تحصیل نکوڑ کے گاؤں کنڈا کلاں میں دیکھنے کو ملا ہے کہ جہاں ۲۰۱۱ میں بخار نے ہرروز تین چار افراد کو اپنا شکار بنایا اور یہ سلسلہ پورے ۳۶ ماہ تک لگاتار چلا آج بھی اس گاؤں میں اس طرح کے اثرات موجود ہیں آج بھی یہاں کے لوگ بیمار بھی ہیں سرکاری ترجمان نے اس علاقہ میں ایک سوسے زائد اموات کی تصدیق تو کی مگر یہ بھی کہا کہ یہ موتیں مختلف بخاروں سے ہوئی مگرسرکاری تر جمان اس سوال کا جواب آج تک بھی نہی دے سکے؟